کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 615
بدمعاشوں کو آپ کے پاس سے دفع کرنے میں کامیاب ہوئے، کچھ دیر کے بعد وہ شور و شر جو لشکر میں برپا تھا فرو ہوا وہاں سے آپ شہر مدائن کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں ایک خارجی نے جس کو جراح بن قبیصہ کہتے تھے موقع پا کر آپ کے ایک نیزہ مارا جس سے آپ کی ران زخمی ہوئی، آپ کو ایک چار پائی یا سر پر اٹھا کر مدائن کے قصر ابیض میں لائے اور وہیں آپ مقیم ہوئے، عبداللہ بن حنظل اور عبداللہ بن ظبیان نے جراح بن قبیصہ خارجی کو قتل کیا، قصرابیض میں آپ کے زخم کا علاج جراحوں نے کیا اور جلد یہ زخم اچھا ہو گیا۔
قیس بن سعد جو بارہ ہزار کا لشکر لے کر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ ہوئے تھے مقام انبار میں مقیم تھے کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آ کر ان کا محاصرہ کر لیا اور عبداللہ بن عامر کو تحریک صلح کے لیے مدائن کی طرف بطور مقدمۃ الجیش روانہ کیا، ادھر مدائن میں پہنچ کر اور اپنے لشکر والوں کی یہ بدتمیزیاں دیکھ کر سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ پہلے ہی صلح کا ارادہ کر کے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد یعنی عبداللہ بن حارث بن نوفل کو جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے تھے مع درخواست صلح روانہ کر چکے تھے۔
عبداللہ بن عامر کو مدائن کے قریب پہنچا ہوا سن کر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے مع لشکر مدائن سے نکلے، عبداللہ بن عامر نے اپنے مقابلہ پر لشکر کو آتا ہوا دیکھ کر اور قریب پہنچ کر اہل عراق کو مخاطب کر کے کہا کہ میں لڑنے کے لیے نہیں آیاہوں ، میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقدمۃ الجیش ہوں اور امیر معاویہ انبار میں بڑے لشکر کے ساتھ مقیم ہیں ، تم لوگ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں میرا سلام پہنچاؤ اور عرض کرو کہ عبداللہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہتا ہے کہ لڑائی سے ہاتھ روکو تاکہ ہلاکت سے بچ جائیں ، سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی تو مدائن میں واپس چلے آئے اور عبداللہ کے پاس پیغام بھیجا کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے اور خلافت سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوں بشرطیکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میری چند شرطیں منظور کر لیں جن میں سب سے مقدم یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتاب و سنت پر عامل رہنے اور سابقہ مخالفتوں کو فراموش کر کے کسی کے جان و مال سے تعرض نہ کرنے اور ہمارے طرف داروں کو جان کی امان دینے کا وعدہ کر لیں ، والصلح خیر۔
عبداللہ بن عامر یہ سن کر فوراً سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس گئے اور کہا کہ چند شرطوں کے ساتھ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ تفویض خلافت پر آمادہ ہیں ، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا، وہ شرطیں کیا ہیں ، عبداللہ بن عامر نے کہا کہ پہلی شرط یہ ہے کہ جب تم فوت ہو جاؤ تو تمہارے بعد خلافت سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو ملے، دوسری شرط یہ ہے کہ جب تک تم زندہ رہو ہر سال پانچ لاکھ درہم سالانہ بیت