کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 614
کرتے ہوئے جب مقام دیر عبدالرحمن میں پہنچے تو قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو بارہ ہزار کی جمعیت سے بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا، ساباط مدائن میں پہنچ کر لشکر کا قیام ہوا تو وہاں کسی نے یہ غلط خبر مشہور کر دی کہ قیس بن سعد مارے گئے، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے یہاں ایک روز قیام کیا تاکہ سواری کے جانوروں کو آرام کرنے کا موقع مل جائے، اس جگہ آپ نے لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور حمدو ثنا کے بعد کہا کہ ’’لوگو تم نے میرے ہاتھ پر اس شرط کے ساتھ بیعت کی ہے کہ صلح وجنگ میں میری متابعت کرو گے، میں خدائے برتر و توانا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھ کو کسی سے بغض و عداوت نہیں ، مشرق سے مغرب تک ایک شخص بھی مجھ کو ایسا نظر نہیں آتا کہ میرے دل میں اس کی طرف سے رنج و ملال اور نفرت و کراہت ہو، اتفاق و اتحاد، محبت و سلامتی اور صلح و اصلاح کو میں نااتفاقی اور دشمنی سے بہر حال بہتر سمجھتا ہوں ۔‘‘ امام حسن رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ: اس تقریر کو سن کر خوارج اور منافقین نے فوراً لشکر میں یہ بات مشہور کر دی کہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرنا چاہتے ہیں پھر ساتھ ہی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگانے کی رسم منافقوں اور سبائیوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، انھی لوگوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا، کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ آج ہمارے زمانے کے بڑے بڑے اعلم العلماء اور افضل الفضلاء کہلانے والے جبہ پوش مفتی منافقوں اور مسلم نما یہودیوں کی اس پلید سنت کے زندہ رکھنے اور امت محمدیہ کے شیرازہ کو اپنی تکفیر بازی و فتویٰ گری کے خنجر سے پارہ پارہ اور پریشان کرنے میں پوری مستعدی و سرگرمی کو کام میں لا رہے ہیں ، انا للّٰہ و إنا الیہ راجعون۔ غرض اس کفر یہ فتوٰے کا سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے لشکر پر یہ اثر ہوا کہ تمام لشکر میں ہلچل مچ گئی، کوئی کہتا تھا کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کافر ہو گئے، کوئی کہتا تھا کہ کافر نہیں ہوئے، آخرکار کافر کہنے والوں کا زور ہو گیا اور انہوں نے اپنے مخالف خیال لوگوں پر زیادتی اور مار دھاڑ شروع کر دی، پھر بہت سے لوگ کافر کافر کہتے ہوئے سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے خیمے میں گھس آئے اور ہر طرف سے آپ کا لباس پکڑ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا، یہاں تک کہ آپ کے جسم پر تمام لباس پارہ پارہ ہو گیا، آپ کے کاندھے پر سے چادر کھینچ کر لے گئے اور ہر چیز خیمے کی لوٹ لی، یہ حال دیکھ کر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قوم ربیعہ و ہمدان کو آواز دی، یہ دونوں قبیلے آپ کی حمایت و حفاظت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور