کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 612
ہے(نعوذ باللہ) کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیرا باپ کون تھا تو وہ کہتا ہے کہ میری ماں گھوڑی تھی، آپ نے اس کے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں یہ بات کبھی نہ بھولوں گا کہ تو مجھے بلا سبب گالیاں دیتا ہے، آخر ایک روز تجھ کو اور مجھ کو خدا تعالیٰ کے سامنے جانا ہے، اگر تو اپنے قول میں سچا ہے، تو خدائے تعالیٰ تجھ کو سچ بولنے کی جزائے خیر دے اور اگر تو جھوٹا ہے تو خوب یاد رکھ کہ خدائے تعالیٰ سب سے زیادہ منتقم ہیں ، جریر ابن اسماء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے وفات پائی، تو مروان آپ کے جنازہ پر رونے لگا، حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب تو تو روتا ہے اور زندگی میں ان کو ستاتا رہا، مروان نے کہا جانتے بھی ہو، میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا جو پہاڑ سے بھی زیادہ حلیم تھا۔ علی بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے دو مرتبہ اپنا مال راہ خدا میں خیرات کیا اور تین مرتبہ نصف نصف خیرات کر دیا، یہاں تک کہ ایک جوتا رکھ لیا ایک دے دیا، ایک موزہ رکھ لیا اور ایک دے دیا، آپ عورتوں کو طلاق بہت دیا کرتے تھے، بجز اس کے جس کو آپ سے محبت ہو جاتی، حتیٰ کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل کوفہ سے کہنا پڑا کہ تم میرے بیٹے حسن کو لڑکیاں نہ دو، لیکن ہمدان نے کہا کہ ہم سے یہ نہ ہو گا کہ لڑکیاں ان کے نکاح میں نہ دیں ۔ ایک مرتبہ آپ کے سامنے ذکر ہوا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تونگری سے مفلسی کو اور تندرستی سے بیماری کو زیادہ عزیز رکھتا ہوں ، آپ نے فرمایا کہ خدا ان پر رحم کرے، میں تو اپنے آپ کو بالکل خدا کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں اور کسی بات کی تمنا نہیں کرتا، وہ جو کچھ چاہے کرے مجھے دخل دینے کی کیا مجال ہے۔ آپ نے ربیع الاول ۴۱ ھ میں خلافت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی تو اس کے بعد آپ کے دوست جب آپ کو عار المسلمین کے نام سے پکارتے تو آپ فرمایا کرتے کہ عار (شرمندگی) نار (دوزخ) سے بہتر ہے۔ ایک شخص نے آپ سے کہا کہ اے مسلمانوں کے ذلیل کرنے والے تجھ پر سلام ہو، تو آپ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا ذلیل کرنے والا نہیں ہوں ، بلکہ مجھے یہ اچھا نہ معلوم ہوا کہ تم کو ملک کے لیے قتل کرا دیتا۔ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ افواہ ہے کہ آپ پھر خلافت کے خواہشمند ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ جب اہل عرب کے سر میرے ہاتھ میں تھے جس سے چاہتا لڑا دیتا اس وقت میں نے محض خوشنودی الٰہی کے لیے خلافت چھوڑ دی، تو اب محض اہل حجاز کو خوش کرنے کے لیے کیوں قبول کرنے لگا تھا۔