کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 611
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نام و نسب و حلیہ وغیرہ: حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما خلفائے راشدین میں سب سے آخری خلیفہ سمجھے جاتے ہیں ، آپ نصف شعبان ۳ ھ میں پیدا ہوئے، آپ کی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مشابہ تھی، آپ کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا، زمانہ جاہلیت میں یہ نام کسی کا نہ تھا، امام بخاری نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف رکھتے تھے، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھے تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف اور کبھی سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور یہ مسلمانوں کے دو گروہوں میں مصالحت کرائے گا۔[1] ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھا رکھا تھا، ایک شخص راستے میں ملا، اس نے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا کہ میاں صاحبزادے تم نے کیا اچھی سواری پائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوار بھی تو بہت اچھا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اہل بیت میں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ مشابہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ خصائل حمیدہ: سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نہایت حلیم، صاحب وقار، صاحب حشمت اور نہایت سخی تھے، فتنہ و خون ریزی سے آپ کو سخت نفرت تھی، آپ نے پیادہ پا پچیس حج کیے، حالانکہ اونٹ گھوڑے آپ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ صرف سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ ہی ایک ایسے شخص تھے کہ جب بات کرتے تھے تو میں چاہتا تھا کہ آپ باتیں کیے جائیں اور اپنا کلام ختم نہ کریں اور آپ کی زبان سے میں نے کبھی کوئی فحش کلمہ نہیں سنا۔ مروان بن الحکم جب مدینہ کا عامل تھا اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ بھی بعد ترک خلافت مدینہ ہی میں رہتے تھے تو مروان نے ایک مرتبہ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی کی زبانی کہلا بھجوایا کہ تیری مثال خچر کی سی
[1] صحیح بخاری، کتاب الصلح حدیث ۲۷۰۴۔