کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 607
لیکن فہم و فراست اور غور و تامل کے لیے اس میں میں بہت سی بھلائیاں اور خوبیاں پوشیدہ ہیں ۔ وہ بیس سالہ فتوحات جس طاقت کے ذریعہ حاصل ہوئیں وہ طاقت نتیجہ تھی اس روحانیت اور اس تعلیم کا جو اسلام اور قرآن مجید کے ذریعہ صحابہ کرام کو حاصل ہوئی تھیں اور یہ اندرونی اور فتنے جس چیز نے پیدا کیے تھے وہ نتیجہ تھا اس طاقت کا جو مادیت اور اس دنیا کے باشندے ہونے کی وجہ سے ہر انسان میں پیدا ہو سکتی ہے، ان دس سالہ رکاوٹوں اور اندرونی جھگڑوں نے عالم اسلام کے لیے اسی طرح قوت اور سامان نمونہ بہم پہنچایا، جس طرح موسم خزاں میں درخت اپنے نشوونما کے مادے جمع کر لیتا ہے اور موسم بہار کے آنے پر پھل، پھول اور پتے پیدا کرتا ہے، اگر ان ابتدائی ایام میں مسلمان آپس کی لڑائیوں اور تباہیوں کے نظارے نہ دیکھ لیتے اور ان کی تاریخ کے ابتدائی صفحات میں وہ دس سالہ درد انگیز صفحہ موجود نہ ہوتا، تو آگے چل کر قرون اولیٰ کے بعد جب کبھی وہ ایسی زبردست ٹھوکر کھاتے تو ایسے حواس باختہ ہوتے اور اس طرح گرتے کہ پھر کبھی سنبھل ہی نہ سکتے۔ ٹھوکریں کھانا، آپس میں اختلاف کا پیدا ہونا، بھائی کا بھائی سے لڑنا، خانہ جنگی کے شعلوں کا گھروں کے اندر بلند ہونا، ہابیل و قابیل کے زمانہ کی انسانی سنت ہے اور بنی نوع انسان جب تک اس ربع مسکون میں آباد ہے یہ چیزبھی اس دنیا میں برابر موجود رہے گی۔ حق و باطل کی جنگ جس طرح دنیا میں جاری رہی ہے، اسی طرح روحانیت کے کم زور اور مادیت کے نمایاں ہو جانے پر حامیان حق کے اندر تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد کھٹ پٹ ہوتی رہی ہے، سیّدنا موسیٰ علیہ السلام بھی جب سیّدنا ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال کھینچ سکتے، یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائی کنویں میں گرا سکتے اور چند درہموں کے عوض فروخت کر سکتے اور حواریان مسیح علیہ السلام میں سے بعض بروایت اناجیل مروجہ خود سیّدنا مسیح علیہ السلام کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں ، تو ارباب حق کی اندرونی مخالفتوں اور صحابہ کرام کے مشاجرات پر حیران ہونے اور تعجب کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، آپس کی مخالفتوں اور لڑائی جھگڑوں سے نوع انسان کبھی کلی محفوظ نہیں ہو سکتی۔ پس یہ فطری تقاضا اگر صحابہ کرام کے زمانہ میں ظہور پذیر نہ ہوتا تو بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے اندرونی نزاعات کی مصیبت سے گزر کر پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے، گر کر پھر سنبھلنے، رک کر پھر چلنے کا موقع نہیں رہتا اور اسلام آج اپنی اصلی حالت میں تلاش کرنے سے بھی کسی کو نہ مل سکتا، دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا ہے کہ سیّدنا علی اور سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہما اور سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کی مخالفتیں اسلامی حکومت کی آئندہ زندگی کے لیے اس ٹیکہ کی مثال تھیں ، جو چیچک سے محفوظ