کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 606
رائے بالکل الگ اور غیر ملتبس طور پر نظر آئے۔ جس طرح صحابہ کرام کو آج کے مسلمانوں ، مولویوں اور صوفیوں پر قیاس کرنا غلطی ہے، اسی طرح ان کو عالم انسانیت سے بالا تر ہستیاں سمجھنا اور انسانی کمزوریوں سے قطعاً مبرا یقین کرنا بھی غلطی ہے، آخر وہ انسان تھے، کھانے ، پینے ، پہننے، سونے کی تمام ضرورتیں ان کو اسی طرح لاحق تھیں جس طرح تمام انسانوں کو ہوا کرتی ہیں ، صحابہ کرام کا تو کہنا ہی کیا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے انسان ہونے کا اقرار اور بشر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے پر فخر تھا، ہم روزانہ اپنی نمازوں میں اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ کہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عبد خدا ہونے کا اقرار کرتے اور بندہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔ ہاں ! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم عن الخطاء اور جامع جمیع کمالات انسانیہ یقین کرتے اور نوع انسان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو سب سے بہتر کامل و مکمل نمونہ جانتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اقتداء میں سعادت انسانی تک پہنچنے کا طریق مانتے ہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت وہ برگزیدہ جماعت ہے جنہوں نے براہ راست، بلا توسط غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے نمونہ کو دیکھا اور ہدایت یاب و سعادت اندوز ہوئے، لیکن چونکہ وہ نبی نہ تھے، معصوم بھی نہ تھے، ان کی استعدادیں بھی مختلف تھیں ، لہٰذا ان میں ایک طرف صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کی جماعت میں معاویہ و مغیرہ رضی اللہ عنہما بھی موجود ہیں ، ایک طرف ان میں عائشہ و علی رضی اللہ عنہما جیسے فقیہ موجود ہیں ، تو دوسری طرف ان میں ابوہریرہ و ابن مسعود رضی اللہ عنہما جیسے راوی و محدث بھی پائے جاتے ہیں ، ایک طرف ان میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ جیسے سیاسی لوگ ہیں ، تو دوسری طرف ان میں عبداللہ بن عمر اور ابوذر رضی اللہ عنہما جیسے متقی و زاہد بھی پائے جاتے ہیں ، پس مختلف استعدادوں کی بنا پر اگر ان کے کاموں اور کارناموں میں ہمیں کوئی اختلاف نظر آئے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اختلاف کو اپنے لیے صبر و سکون کے ساتھ سامان رحمت بنا لیں اور عجلت و کوتاہ فہمی کے ذریعہ باعث گمراہی نہ بننے دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ۳۰ ھ تک یعنی ۲۰ سال برابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دنیا میں فتوحات حاصل ہوتی رہیں اور ہر سال بلکہ ہر مہینہ کوئی نہ کوئی ملک یا صوبہ مفتوح ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہوتا رہا، اس بیس سالہ فتوحات نے براعظم ایشیا و افریقہ کے قریباً تمام متمدن ممالک کو اسلامی حکومت کے دائرہ میں داخل کر دیا تھا اور اسلامی سیادت تمام دنیا میں مسلم ہو چکی تھی، ۳۰ ھ سے ۴۰ ھ تک فتوحات کا سلسلہ قریباً رکا رہا اور اس دس سال کی مدت میں مسلمانوں کے اندر آپس کے جھگڑے اور اندرونی نزاعات برپا رہے، چشم ظاہر بین اس دس سالہ مدت کو سراسر زیان و نقصان ہی محسوس کرتی ہے،