کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 605
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھ سے یہ وعدہ فرماتے تو سیّدنا ابوبکرصدیق اور سیّدنا عمرفاروق اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہم کو کیوں خلیفہ بننے دیتا اور کیوں ان کی بیعت کرتا۔ آج کے مولویوں اور صوفیوں سے اس قسم کی توقعات کہاں ہو سکتی ہیں ، ہر ایک شخص خود ہی اپنے دل میں اندازہ کر لے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک حق و باطل کی معرکہ آرائی اور لڑائی کا سلسلہ جاری رہا ہے اور جاری رہے گا، رحمانی اور شیطانی دونوں گروہ دنیا میں ہمیشہ پائے گئے اور پائے جائیں گے، ارباب حق اور ارباب باطل کا وجود دنیا کو کبھی خالی نہیں چھوڑ سکتا اور یہی حق و باطل کا مقابلہ ہے، جس کی وجہ سے نیکوں کے لیے ان کی نیکی کا اجر مرتب ہوتا ہے اور مومن کے ایمان کی قدر خدا تعالیٰ کی جناب میں کی جاتی ہے، مومنوں اور مسلمانوں کی تعریف خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں ﴿اُمَّۃً وَّسَطًا﴾ (البقرۃ : ۱۴۳) فرمائی ہے، اسلام میانہ روی سکھاتا اور افراط و تفریط کے پہلوؤں سے بچاتا ہے۔ بہت سے لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں افراط و تفریط کے پہلوؤں کو اختیار کر کے گمراہ ہو گئے ہیں ، ان گمراہ لوگوں میں سے ایک گروہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف پہلو پر اس قدر زور دیا کہ اپنی مخالفت کو عداوت، بلکہ ذلیل ترین عناد کے درجہ تک پہنچا دیا اور خدائے تعالیٰ کے اس برگزیدہ بندے کو گالیاں دینے میں تامل نہ کر کے اپنی گمراہی اور خسران و خذلان میں کوئی کمی نہ رکھی، دوسرے گروہ نے ان کی محبت میں ضرورت سے زیادہ مبالغہ کر کے ان کو خدائی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور ایک بندے کو خدائی صفات کا مظہر قرار دے کر دوسرے پاک اور نیک بندوں کو گالیاں دینا اور برا کہنا ثواب سمجھا اور اس طرح اپنی گمراہی کو حد کمال تک پہنچا کر پہلے گروہ کا ہمسر بن گیا، اس معاملہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا وجود بہت کچھ سیّدنا مسیح علیہ السلام کے وجود سے مشابہ نظر آتا ہے، کیونکہ یہودی ان کی مخالفت کے سبب گمراہ ہوئے اور عیسائی ان کی محبت و تعظیم میں مبالغہ کرنے اور ان کو خدائی تک کا مرتبہ دینے میں گمراہ ہوئے۔ سچے پکے مسلمان جس طرح سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں افراط و تفریط کے پہلوؤں یعنی یہود و نصاریٰ کے عقائد سے بچ کر طریق اوسط پر قائم ہیں ، اسی طرح سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں بھی وہ خارجیوں اور شیعوں کے عقائد سے محترزرہ کر طریق اوسط پر قائم ہیں ، یہ چند سطریں غالباً ایک تاریخ کی کتاب میں غیر موزوں اور تاریخ نویسی کے فرائض سے بالا تر سمجھی جائیں گی، لیکن ایسے عظیم الشان معاملہ کی نسبت جو آئندہ چل کر عالم اسلام پر نہایت قوی اثر ڈالنے والا ہے، ایک مسلمان کے قلم سے چند الفاظ کا نکل جانا عیب نہ سمجھا جائے گا، جب کہ واقعات تاریخی کو بلا کم و کاست لکھ دینے کے بعد مؤلف کی