کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 604
پر متمکن ہو سکتے اور وہ پھر زمام خلافت اپنے ہاتھ میں لے لیتے، تو وہ یقینا چند ہفتوں میں وہی پہلی حالت قائم کر لیتے، مگر یہ سب خیالی باتیں ہیں ، مصلحت الٰہی اور مشیت ایزدی نے اسی کو مناسب سمجھا جو ظہور میں آیا۔
سیدنا علی اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کی معرکہ آرائیوں اور سیّدنا زبیر و سیّدنا طلحہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہم کی لڑائیوں وغیرہ کو ہم لوگ اپنے زمانہ کی مخالفتوں اور لڑائیوں پر قیاس کر کے بہت کچھ دھوکے اور فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، ہم ان بزرگوں کے اخلاق کو اپنے اخلاقی پیمانوں سے ناپنا چاہتے ہیں ، حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
خوب غور کرو اور سوچو کہ جنگ جمل کے موقع پر سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما نے کس عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ اور معرکہ آرائی کے لیے تیاری کی تھی، لیکن جب ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد دلائی گئی، تو کس طرح وقت کے وقت پر جب کہ ایک زبردست فوج جاں نثاروں کی ان کے قبضے میں تھی وہ میدان جنگ سے جدا ہو گئے، ان کو غیرت بھی دلائی گئی ان کو بزدل بھی کہا گیا، پھر وہ لڑائی اور میدان جنگ کو کھیل تماشے سے زیادہ نہ سمجھتے تھے، ان کی شمشیر خارشگاف ہمیشہ بڑے بڑے میدانوں کو سر کرتی رہی تھی، مگر انہوں نے کسی چیز کی بھی پروا دین و ایمان کے مقابلہ میں نہ کی، انہوں نے ایک حدیث سنتے ہی اپنی تمام کوششوں ، تمام امیدوں ، تمام اولو العزمیوں کو یک لخت ترک کر دیا۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالی جناب مولوی جو مسلمانوں میں بڑی عزت و تکریم کا مقام رکھتے ہیں ، اگر کسی مسئلہ میں ایک دوسرے کے مخالف ہو جائیں ، تو برسوں مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایک دوسرے کی ہر طرح تذلیل و تنقیص کرتے اور بعض اوقات کچہریوں میں مقدمات دائر کر دیتے ہیں ۔ گالیاں دینا اور اپنے حریف کو برا کہنا اپنا حق سمجھتے ہیں ، مگر یہ سراسر محال ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک اپنی غلطی تسلیم کر لے اور اپنے حریف کی سچی بات تسلیم کر کے لڑائی جھگڑے کا خاتمہ کر دے۔
جنگ صفین اور فیصلہ حکمین کے بعد ایک مرتبہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک استفتاء بھیجا اور فتویٰ طلب کیا کہ خنثیٰ مشکل کی میراث کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب میں لکھ بھیجا کہ اس کی پیشاب گاہ کی صورت سے حکم میراث جاری ہو گا، یعنی اگر پیشاب گاہ مردوں کی مانند ہے تو حکم مرد کا ہو گا اور اگر عورت کی مانند ہے تو عورت کا حکم ہوگا۔
بصرہ میں جنگ جمل کے بعد آپ داخل ہوئے، تو قیس بن عبادہ نے عرض کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ بنائے جاؤ گے، کیا یہ بات درست ہے،