کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 603
بنانے میں انہوں نے سوچا تھا حاصل نہ ہوا، ساتھ ہی اس اسلام میں حجاز کو جو اہمیت حاصل تھی کوفہ کے دارالخلافہ ہونے سے حجاز کی حیثیت اور اہمیت کم ہو گئی جس کے سبب وہ امداد جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملک حجاز سے حاصل ہوتی، حاصل نہ ہو سکی۔ منافقوں اور خفیہ سازشیں کرنے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی مسلمانوں کو کئی مرتبہ پریشانیوں میں مبتلا کیا، لیکن وہ اپنے پلید و ناستودہ مقاصد میں ناکام و نامراد ہی رہے، عہد صدیقی رضی اللہ عنہ اور عہد فاروقی میں یہ شریر لوگ کوئی قابل تذکرہ حرکت نہ کر سکے، عہد عثمانی میں ان کو پھر شر انگیزی کے مواقع میسر آ گئے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا تمام عہد خلافت ان ہی شریروں کی شرارتوں کے پیدا کیے ہوئے ہنگاموں میں گزرا۔ اگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور بھی مواقع ملتے، اور ان کی شہادت کا واقعہ اس قدر جلد عمل میں نہ آتا، تو یقینا وہ چند روز کے بعد تمام مفسدوں کی مفسدہ پردازیوں پر غالب آ کر عالم اسلامی کو ان اندرونی ہنگامہ آرائیوں سے پاک صاف کر دیتے، کیونکہ ان کے عزم و ہمت اور استقلال و شجاعت میں کبھی کوئی فرق نہیں پایا گیا، وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے اور ان پر غالب آنے کے لیے ہمیشہ مستعد پائے جاتے تھے، کسی وقت بھی ان کے قلب پر پوری مایوسی اور پست ہمتی طاری نہ ہو سکتی تھی اور یہ وہ بات تھی جس کی توقع کسی دوسرے شخص سے ایسے حالات میں ہرگز نہیں ہو سکتی تھی، وہ لوگوں کی دھوکا بازیوں ، چالاکیوں اور پست ہمتیوں کے متعلق بھی اب تجربہ حاصل کر چکے تھے، وہ ان باتوں سے بھی واقف ہو چکے تھے جن کے نتائج ان کی توقع کے خلاف برآمد ہوئے تھے، لیکن مشیت ایزدی اور حکم الٰہی یہی تھا کہ وہ جلد شہادت پائیں اور بنو امیہ کے لیے میدان خالی چھوڑ جائیں ۔ بنو امیہ کا قبیلہ اپنے آپ کو ملک عرب کا سردار اور بنو ہاشم کو اپنا رقیب سمجھتا تھا، اسلام نے ان کے مفاخر کو مٹا اور بھلا دیا تھا، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت نے ان کو پھر چونکا دیا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی سیادت کو واپس لانے کے لیے تدابیر سوچنے میں مصروف ہو گئے اور منافقوں کی سازشوں نے ان کی تدابیر کو عملی جامہ پہنانے اور کامیاب بنانے میں امداد پہنچائی، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو ناگوار اور ناشدنی حالات پیدا ہو چکے تھے، ان حالات کو روبہ صلاح کرنے اور پہلی حالت دوبارہ قائم کرنے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو زیادہ پریشانی اٹھانی پڑی اور وہ زیادہ وقت یعنی اپنا تمام عہد خلافت صرف کرنے پر بھی ان مشکلات پر غالب نہ ہونے پائے تھے کہ شہید ہوئے۔ لیکن یہ کہنا کہ اگر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد یہ ممکن ہوتا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دوبارہ تخت خلافت