کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 602
لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس احتیاط نے کہ خلافت اسلامی میں کسی رشتہ داری کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی قابلیت کو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں مؤخر کر دیا، تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنا ضروری سمجھا اور بلا اظہار مخالفت بیعت عثمانی میں داخل ہو گئے۔ غرض سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے تمام کاموں سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ امر ثابت ہے کہ وہ جس بات کو حق اور سچ جانتے تھے، اس کے حق اور سچ کہنے میں کسی مصلحت اور پالیسی کی وجہ سے تامل کرنا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے، ان کا چہرہ ان کے قلب کی تصویر اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ تھا، وہ ایک شمشیر برہنہ تھے اور حق کو حق کہنے میں کبھی نہ چوکتے تھے، اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ اپنے آپ کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت بہت کچھ بچا کر رکھتا اور بیعت خلافت کے وقت بڑی بڑی احتیاطیں عمل میں لاتا، اسی طرح بیعت خلافت کے بعد عام افواہوں کے اثر کو زائل کرنے اور بنو امیہ کی مخالفانہ کوششوں کو ناکام رکھنے کی غرض سے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور مالک اشتر وغیرہ چند بلوائی سرداروں کا قصاص عثمانی میں قتل کرا دینا اور زیر سیاست لانا زیادہ کچھ مشکل نہ تھا، کیونکہ عالم اسلامی اس معاملہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی تائید کے لیے مستعد تھا، لیکن ان کو ایسی پختہ شہادتیں نہ مل سکیں ، جن کی بنا پر وہ ان لوگوں کو شرعاً زیر قصاص لا سکتے، لہٰذا انہوں نے تامل فرمایا اور اس تامل سے جو فتنے پیدا ہوئے ان سب کا مقابلہ کیا مگر اپنے نزدیک جس کام کو ناکردنی سمجھا تھا اس کو ہرگز نہ کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا ان میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل تھے جو چالاکیوں ، مصلحت اندیشیوں اور چال بازیوں سے کام لینا جانتے تھے، وہ خالص اسلامی کرہ ہوائی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پیدا ہو کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے آخر عہد تک قائم تھا، دنیا طلبی، جاہ طلبی، نسلی و خاندانی تفوق و امتیاز اور ایران و مصر وغیرہ کے کثیر التعداد نو مسلموں کے اسلامی برادری میں شامل ہو جانے کے سبب کسی قدر غبار آلود ہونے لگا تھا، پھر ان کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت بہت مختصر رہ گئی تھی، بڑے بڑے صاحب اثر اور جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم فوت ہو چکے تھے، جو تھوڑی سی تعداد باقی تھی وہ سب منتشر تھی، کوئی کوفہ میں تھا کوئی بصرہ میں ، کوئی دمشق میں تھا کوئی مصر میں ، کوئی یمن میں تھا کوئی فلسطین میں ، کوئی مکہ میں تھا کوئی مدینہ میں ۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد مدینہ منورہ میں موجود تھی اور بہت ہی کم لوگ باہر دوسرے شہروں میں ضرورتاً جاتے اور مدینہ میں واپس آتے رہتے تھے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی سکونت کو ترک کر کے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور سوئے اتفاق سے وہ فائدہ جو کوفہ کو دارالخلافہ