کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 601
اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل تھے جو لوگوں کو نبیوں اور پیغمبروں کی طرح حکم دیتے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پالیسی اور چالاکی سے قطعاً پاک اور مبرا تھے، ان کے نزدیک حق اور سچ کو تسلیم کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا، وہ ابتدا ء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو سب سے زیادہ حق دار خلافت سمجھتے تھے، لہٰذا انہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ اس کا اظہار کر دیا اور چند روز تک سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، پھر ان ہی ایام میں جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کو سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج پر آمادہ کرنا چاہا، تو انہوں نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نہایت حقارت کے ساتھ جھڑک دیا، کیونکہ وہ اس فعل کو برا جانتے تھے، جب ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ خلافت کے معاملہ میں کسی رشتہ داری کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اور ضروری باتیں قابل لحاظ ہیں اور سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مستحق تھے، تو خود بخود آ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے، اور بیعت ہونے کے بعد وہی سب سے زیادہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے معین و مددگار اور دل سے فرماں بردار تھے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں سب سے زیادہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشوروں کی قدر کرتے اور اعاظم امور میں عموماً ان ہی کی رائے کو قابل عمل جانتے تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہمیشہ سچے اور اچھے مشورے دیے اور اس بات کی مطلق پروانہ کی کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں یا دوسرے کی بات مانتے ہیں ، انہوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض کاموں کو قابل اعتراض پایا تو بلا تائل ان پر اعتراض بھی کیا۔ لوگوں نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف صدائے احتجاج بند کی تو جہاں تک ان کے نزدیک یہ احتجاج جائز تھا، وہاں تک انہوں نے اس کو اطمینان کی نظر سے دیکھا اور جس قدر حصہ انہوں نے جائز نہ سمجھا اسی قدر اس کی مخالفت کی اور روکنا چاہا، مدینہ منورہ میں جب بلوائیوں کا زور و شور دیکھا اور ناشدنی علامات ظاہر ہوئیں تو انہوں نے چالاکی اور چالبازی کے ساتھ اپنی پوزیشن صاف دکھانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی بلکہ صرف اپنی پاک طینتی اور صاف باطنی پر مطمئن رہے۔ شہادت عثمانی رضی اللہ عنہ کے بعد جب لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو چونکہ وہ اب اپنے آپ کو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ اس عہدہ جلیلہ کا مستحق سمجھتے تھے، لہٰذا انہوں نے کسی کسر نفسی اور تکلف کو کام میں لانے اور انکار کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت ان کو توقع تھی کہ مجھ کو خلیفہ منتخب کیا جائے گا