کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 598
گرفتار کر لیا گیا، شبیب کو ایک شخص حضرمی نے پکڑا، مگر وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور ہاتھ نہ آیا وردان بھاگ کر اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا کہ لوگوں نے جا لیا اور وہیں قتل کر دیا۔ ابن ملجم گرفتار ہو کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے حکم دیا کہ اگر میں اس زخم سے مر جاؤں تو تم بھی اس کو قتل کر دینا اور اگر میں اچھا ہو گیا تو خود جو مناسب سمجھوں گا کروں گا، پھر آپ نے بنو عبدالمطلب کو وصیت کی کہ میرے قتل کو مسلمانوں کی خون ریزی کا بہانہ نہ بنانا، صرف اسی ایک شخص کو جو میرا قاتل ہے قصاص میں قتل کر دینا۔ پھر سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمایا، کہ اے حسن اگر اس زخم کے صدمہ سے میں مر جاؤں تو تم بھی اس کی تلوار سے ایسا ہی ایک وار کرنا کہ اس کا کام تمام ہو جائے اور مثلہ ہرگز نہ کرنا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ابن ملجم کی تلوار کا زخم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی کنپٹی تک پہنچا تھا اور تلوار کی دھار دماغ تک اتر گئی تھی، مگر آپ جمعہ کے دن تک زندہ رہے، ہفتہ کے روز ۱۷ رمضان المبارک کو آپ نے وفات پائی، آپ کے وفات پانے سے پیشتر جندب بن عبداللہ نے آ کر عرض کیا کہ آپ ہم سے جدا ہو جائیں یعنی وفات پا جائیں تو کیا ہم سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں ، آپ نے فرمایا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا، تم جو مناسب سمجھنا کرنا۔ پھر حسنین رضی اللہ عنہما کو بلا کر فرمایا کہ میں تم کو خدائے تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا میں مبتلا نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں ، تم کسی چیز کے حاصل نہ ہونے پر افسوس نہ کرنا، ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں پر رحم اور بے کسوں کی مدد کرنا، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا، قرآن شریف پر عامل رہنا اور حکم خدا کی تعمیل میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ پھر محمد بن الحنفیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تم کو بھی ان ہی باتوں کی اور دونوں بھائیوں کی تعظیم مدنظر رکھنے کی وصیت کرتا ہوں ، ان کا حق تم پر زیادہ ہے، ان کی منشاء کے خلاف تم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، حسنین رضی اللہ عنہما کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کو بھی محمد بن الحنفیہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور رعایت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، پھر ایک عام وصیت تحریر کرانے لگے کہ وفات کا وقت آگیا اور سوائے لا الہ الا اللہ کے دوسرا کلمہ زبان مبارک سے نہ نکلا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا پتہ نہیں : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ابن بلجم کو سیّدنا حسن کی خدمت میں پیش کیا گیا اور انہوں