کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 597
کے صدمہ سے دو روز کے بعد ۱۷ رمضان المبارک ۴۰ ھ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔ تفصیل اس حادثہ جانکاہ کی یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم کوفہ میں آ کر اپنے دوستوں سے ملا، مگر کسی پر اپنے ارادہ کو ظاہر نہ کیا، آخر خوب سوچ سمجھ کر اپنے ایک دوست شبیب بن بجرۃ اشجعی پر اپنا راز ظاہر کیا اور اس سے امداد چاہی اور کہا کہ ہم کو مقتولین نہروان کے عوض سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہیے، اوّل تو شبیب نے اس ارادہ سے باز رکھنا چاہا،پھر کچھ متامل ہوا اور آخر کار ابن ملجم کے کام میں امداد کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ قبیلہ تمیم کے دس آدمی جو خارجی ہو کر لشکر خوارج میں شامل تھے، جنگ نہروان میں مقتول ہوئے تھے، ان مقتولین کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو جو کوفہ میں رہتے تھے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے عناد اور ملال تھا۔ ابن ملجم ان لوگوں سے اکثر ملتا اور اکثر ان کے گھروں میں آتا جاتا رہتا تھا، اس نے ایک نہایت حسین و جمیل عورت دیکھی جس کا نام قطام تھا، اس عورت کا باپ اور بھائی دونوں انہیں دس مقتولین میں شامل تھے، ابن ملجم نے قطام کے پاس شادی کا پیغام بھیجا قطام نے کہا کہ پہلے مہر ادا کر دو تو میں نکاح کے لیے تیار ہوں ، جب اس نے مہر کی مقدار دریافت کی گئی تو اس نے کہا کہ تین ہزار درہم، ایک لونڈی، ایک غلام اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا کٹا ہوا سر میرا مہر ہے، ابن ملجم تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی قتل کی نیت سے آیا ہی تھا، اس نے کہ میں صرف آخری شرط پوری کر سکتا ہوں ، باقی شرائط کی بجا آوری سے اس وقت مجبور ہوں ۔ قطام نے کہا کہ اگر تم آخری شرط کو پوری کر دو، تو میں باقی چیزوں کو خود چھوڑتی ہوں ، ابن بلجم نے کہا کہ اگر تو چاہتی ہے کہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے قتل پر قادر ہو جاؤں تو اس راز کو کہیں فاش نہ کرنا، قطام نے راز کی حفاظت کا وعدہ کیا اور اپنے رشتہ داروں میں سے ایک شخص وردان نامی کو ابن ملجم کے ساتھ مقرر کیا کہ وہ ابن ملجم کی مدد کرے۔ آخر مقررہ تاریخ یعنی ۱۶ رمضان المبارک جمعہ کا دن آ پہنچا، اور ابن ملجم، شبیب بن بجرہ اور وردان تینوں پچھلی رات سے مسجد کوفہ میں آئے اور دروازہ کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو حسب عادت نماز کے لیے آوازیں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے، سب سے پہلے وردان نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، مگر اس کی تلوار دروازہ کی چوکھٹ یا دیوار پر پڑی، اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے، ابن ملجم نے فوراً آگے لپک کر آپ کی پیشانی پر تلوار کا ہاتھ مارا جو بہت کاری پڑا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے زخم کھا کر حکم دیا کہ ان کو پکڑو، لوگ نماز کے لیے مسجد میں آ چکے تھے، یہ حکم سنتے ہی دوڑ پڑے، وردان اور شبیب دونوں مسجد سے نکل کر بھاگے، مگر ابن ملجم مسجد سے باہر نہ نکل سکا وہ مسجد ہی کے ایک گوشہ میں چھپا اور