کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 595
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بصرہ سے رخصت ہونا:
انھی ایام یعنی ۴۰ ھ کے ابتدائی ایام میں ایک اور ناگوار واقعہ پیش آیا، یعنی سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو کر بصرہ کی حکومت چھوڑ کر مکہ کی طرف چلے گئے۔
اس ناگوار واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ بصرہ سے ابوالاسود نے سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی جھوٹی شکایت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ لکھ کر بھیجی کہ انہوں نے بیت المال کے مال کو آپ کی اجازت کے بغیر خرچ کر ڈالا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوالاسود کو شکریہ کا خط لکھا کہ اس قسم کی اطلاع دینا اور عاملوں کی بے راہ روی سے آگاہ کرتے رہنا ہمدردی و عقیدت کی دلیل ہے، اور سیّدنا عبداللہ ابن عباس کو لکھا کہ ہمارے پاس اس قسم کی اطلاع پہنچی ہے، تم جواب میں کیا کہتے ہو، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے خط میں ابوالاسود کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواباً لکھا کہ آپ کو جو خبر پہنچی ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے، میں نے جو مال خرچ کیا ہے وہ میرا ذاتی مال تھا، اس کو بیت المال سے کوئی تعلق نہ تھا۔
سیدنا علی نے دوبارہ خط لکھا کہ اگر وہ تمہارا ذاتی مال تھا تو یہ بتاؤ کہ وہ تم کو کہاں سے اور کس طرح حاصل ہوا تھا اور تم نے اس کو کہاں رکھا تھا۔
اس خط کے جواب میں سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے لکھا کہ میں ایسی گورنری سے باز آیا، آپ جس کو مناسب سمجھیں بصرہ کا عامل مقرر کر کے بھیج دیں ، میں نے جو مال خرچ کیا وہ میرا ذاتی مال تھا اور میں اس کو اپنے اختیار سے خرچ کرنے کا اختیار رکھتا تھا، یہ لکھ کر وہ اپنا سامان درست کر کے بصرہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ معظمہ پہنچ گئے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ، کی شہادت:
انھی ایام میں جب سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بصرہ کی حکومت چھوڑ کر مکہ معظمہ میں چلے آئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی سیّدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا معقول روزینہ مقرر کر دیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیّدنا عقیل کے اس طرح جدا ہو جانے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جانے کا سخت ملال ہوا اور آپ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگی تیاریوں کو ضروری سمجھا، کوفیوں کو شام پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور اس مرتبہ کوفیوں پر آپ کی ترغیب کا یہ اثر ہوا کہ ساٹھ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کی کہ ہم تازیست آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور مارنے مرنے پر آمادہ رہیں گے، آپ ان ساٹھ ہزار