کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 593
دوسرے صوبوں پر بھی قابض ہونے کی کوشش: مصر پر قبضہ کرنے کے بعد سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوصلے پہلے سے زیادہ ترقی کر گئے، مصر کے بعد انہوں نے بصرہ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت سے نکالنے کی کوشش کی، بصرہ کی حالت بھی مصر سے مشابہ تھی، واقعہ جمل کی وجہ سے بہت سے اہل بصرہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناخوش اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا معاوضہ طلب کرنا ضروری سمجھتے تھے، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن الحضرمی کو بصرہ کی طرف روانہ کیا اور سمجھایا کہ ان لوگوں کو جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے خوش نہیں ہیں اور خون عثمان کے مطالبہ کو ضروری سمجھتے ہیں اپنی طرف جذب کریں اور ان کی تالیف قلوب میں پوری کوشش عمل میں لا کر بصرہ پر قابض ہو جائیں ۔ ابن حضرمی جب بصرہ پہنچے تو وہاں ان دنوں سیّدنا عبداللہ بن عباس حاکم بصرہ موجود نہ تھے، وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ہوئے تھے، اس لیے عبداللہ بن الحضرمی کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا، چنانچہ بصرہ میں ایک طاقتور جمعیت ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔ یہ خبر جب کوفہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے اعین بن ضبیعہ کو یہ ہدایت کر کے بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو ابن الحضرمی کے گرد جمع ہونے والے لوگوں میں نا اتفاقی اور پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرو، چنانچہ اعین بن ضبیعہ کو اپنی کوشش میں کامیابی حاصل ہوئی، عبداللہ بن الحضرمی بصرہ میں ۳۸ ھ کے آخری ایام میں مقتول ہوئے۔ ۳۹ ھ میں اہل فارس نے یہ دیکھ کر بصرہ کے لوگوں میں اختلاف موجود ہے اور وہاں کچھ لوگ سیّدنا علی کے ہمدرد ہیں تو کچھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے ہمدرد بھی پائے جاتے ہیں ، بغاوت اختیار کر کے اپنے حاکم سہل بن حنیف کو نکال دیا، سیّدنا علی نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما حاکم بصرہ کو لکھا کہ زیاد کو فارس کی حکومت پر روانہ کر دو، چنانچہ زیاد نے فارس میں جا کر اہل فارس کو بزور شمشیر سیدھا کر دیا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان حالات کا جبکہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے لوگ آمادہ نہ ہوئے تھے اور جا بجا ان کے خلاف بغاوتوں کی سازشوں کے سامان نظر آتے تھے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی سخاوت، درگزر، چشم پوشی، احسان، قدردانی، مآل اندیشی سے کام لینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، مدینہ طائف اور یمن وغیرہ سے لوگ کھچ کھچ کر دمشق میں جمع ہونے لگے۔ انہوں نے نعمان بن بشیر کو عین التمر کی طرف بھیجا، وہاں کے والی مالک بن کعب کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوئی امداد نہ پہنچی اور نعمان نے عین التمر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔