کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 591
نے تمام لوگوں کو جمع کر کے تقریر کی اور ان کو جنگ شام کے لیے ترغیب دی، مگر سب نے خاموشی سے اس تقریر کو سنا اور کسی قسم کی آمادگی و مستعدی کا مطلق اظہار نہ کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کی اس سرد مہری کو دیکھ کر مجبوراً خاموش ہو گئے اور ملک شام پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ مصرکی حالت: جیسا کہ اوپر تحریر ہو چکا ہے، جنگ صفین کے وقت کے مصر کے عامل محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ تھے اور وہ اس لڑائی میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکے تھے کیونکہ وہ امیر المومنین سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہو اخواہوں کے ساتھ معرکہ آرائی اور اندرونی جھگڑوں میں گرفتار تھے، ہواخواہان عثمان نے معاویہ بن خدیج کو اپنا سردار بنا کر باقاعدہ مقابلہ اور معرکہ آرائی شروع کر دی اور ان کو کئی معرکوں میں کامیابی بھی حاصل ہو گئی تھی۔ جنگ صفین سے فارغ ہو کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اوّل مالک اشتر نخعی کو جزیرہ کی حکومت پر مامور کر کے بھیجا، لیکن چند روز کے بعد مالک کو مصر کی گورنری پر نامزد کر کے روانہ کیا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ خبر سنی کہ مالک اشتر مصر کی حکومت پر مامور ہو کر آ رہا ہے تو ان کو سخت ملال ہوا، اسی طرح سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خبر کو سنا، تو وہ بھی بہت فکر مند ہوئے، کیونکہ وہ مالک اشتر کو صاحب تدبیر شخص سمجھتے اور جانتے تھے کہ مالک اشتر کے مصر پر قابض ہونے کے بعد مصر کا معاملہ بہت تکلیف دہ اور خطرناک صورت اختیار کر لے گا، مگر اتفاق کی بات کہ مالک اشتر کا مصر میں پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں انتقال ہو گیا اور محمد بن ابی بکرمصر پر بدستور قابض و متصرف رہے۔ مالک اشتر کے مرنے کی خبر سن کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم نے مالک اشتر کو مصر کی حکومت پر اس لیے نامرد نہیں کیا تھا کہ ہم تم سے ناراض تھے، بلکہ اس کا تقرر محض اس لیے عمل میں آیا تھا کہ وہ بعض سیاسی امور کو قابلیت سے انجام دے سکتا تھا جس کی حکومت مصر کے لیے ضرورت تھی، اب جب کہ اس کا راستے ہی میں انتقال ہو گیا، تو ہم تم ہی کو مصر کی حکومت کے لیے بہتر شخص سمجھتے ہیں ، تم کو چاہیے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں جرات و استقلال سے کام لو، اس خط کے جواب میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں آپ کا تابع فرمان ہوں اور آپ کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہوں ۔ یہ واقعات حکمین کے فیصلہ سنانے سے پہلے وقوع پذیر ہو چکے تھے، جب مقام اذرج میں حکمین کے فیصلے کا اعلان ہو گیا، تو اہل شام نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت