کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 590
کے توبہ نہ کرو گے کافر رہو گے اور ہم تمہاری مخالفت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں اللہ پر ایمان لایا، ہجرت کی، خدا کی راہ میں جہاد کیا، میں کس طرح اپنے آپ کو کافر کہوں ، آخر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خود لشکر خوارج کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و پند فرمانے لگے، خوارج کے سرداروں نے یہ دیکھ کر ہمارے عوام پر کہیں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی تقریر کا اثر نہ ہو جائے، بلند آواز سے اپنے لوگوں کو ہدایت کی کہ’’علی رضی اللہ عنہ کی باتوں کو ہرگز ہرگز نہ سنو، نہ ان سے باتیں کرو، بلکہ اللہ کی ملاقات کے لیے دوڑو، یعنی لڑائی شروع کر دو۔‘‘ یہ حالت دیکھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ واپس تشریف لے آئے اور اپنے لشکر کو مرتب فرما کر ہر حصہ پر سردار مقرر کیے اور سیّدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو امان کا جھنڈا دے کر فرمایا کہ کہ تم اس جھنڈے کو لے کر ایک بلند مقام پر کھڑے ہو جاؤ اور بلند آواز سے اعلان کر دو کہ جو شخص بغیر جنگ کیے ہوئے چلا آئے گا اس کو امان دی جائے گی اور جو شخص کوفہ یا مدائن کی طرف چلا جائے گا وہ بھی محفوظ رہے گا، اس اعلان کو سن خوارج کے لشکر سے مروہ بن نوفل اشجعی پانچ سو سواروں کے ساتھ جدا ہو گیا، کچھ لوگ کوفہ کی طرف چل دیئے، کچھ مدائن کی طرف روانہ ہوئے، کچھ امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہو گئے، غرض خوارج کے لشکر میں ایک تہائی سے بھی کم آدمی باقی رہ گئے، ان پر حملہ کیا گیا اور سب کو گھیر کر تہ تیغ کیا گیا، عبداللہ بن وہب زید بن حصین، حرقوص بن زہیر، عبداللہ بن شجر، شریح بن اوفٰی وغیرہ خوارج کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے، صرف نو آدمی خوارج کے زندہ بچ کر فرار ہوئے، باقی سب میدان جنگ میں لڑ کر مارے گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خارجیوں کی لاشوں کو بغیر دفن کیے ہوئے اسی طرح میدان میں چھوڑ کر واپس ہوئے اس لڑائی میں بظاہر خارجیوں کا پورے طور پر استیصال ہو چکا تھا اور اب کوئی خطرہ ان کی طرف سے باقی نہ رہا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ نہروان سے فارغ ہو کر ملک شام کا عزم فرمایا تو اشعث بن قیس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ فی الحال چند روز کے لیے شام کے قصد کو ملتوی کر کے آرام کرنے کا موقع دیجئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ناپسند فرمایا، اور مقام نخیلہ میں آ کر قیام کیا اور حکم دیا کہ کوئی شخص کوفہ میں نہ جائے، جب تک اہل شام پر فتح مندانہ ہو کر واپس نہ آئے، نخیلہ کے قیام میں لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور لشکر گاہ کو خالی چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس طرح لشکرگاہ کو خالی دیکھ کر خود بھی کوفہ میں تشریف لے آئے اور سرداروں کو جمع کر کے اس سستی اور تن آسانی کی وجہ دریافت کی، بہت ہی کم لوگوں نے شام پر حملہ آوری کے لیے آمادگی ظاہر کی، باقی خاموش رہے، پھر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ