کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 589
جس کی تفصیل اس طرح ہے، کہ سیّدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کسی سفر میں تھے کہ نہروان کے قریب ہو کر گزرے اور خوارج کی ایک جماعت کو معلوم ہوا کہ یہ صحابی ہیں ، انہوں نے آ کر سوال کیا کہ آپ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی نسبت کیا کہتے ہیں ، سیّدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ دونوں بہت اچھے اور خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور نیک بندے تھے، پھر خوارج نے دریافت کیا آپ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اوّل اور آخر زمانہ کی نسبت کیا کہتے ہیں ، سیّدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ اوّل سے آخر تک حق پر ست اور حق پسند تھے، پھر خوارج نے پوچھا کہ علی رضی اللہ عنہ کی نسبت حکمین کے مقرر کرنے سے پہلے اور حکمین کے مقرر کرنے کے بعد آپ کا کیا خیال ہے، انہوں نے جواب دیا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تم لوگوں سے زیادہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں ۔ خوارج نے یہ سنتے ہی طیش میں آ کر سیّدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی اور ان کے ہمرائیوں کو قتل کر ڈالا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ خبر سنی تو تحقیق حال کے لیے حارث بن مرہ کو روانہ کیا، خوارج نے ان کو بھی مار ڈالا، ساتھ ہی خبر پہنچی کہ خوارج بلا دریغ ہر اس شخص کو جو ان کا ہم خیال و ہم عقیدہ نہ ہو قتل کر ڈالتے ہیں ، اب ان لوگوں کو جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے یہ فکر ہوئی کہ اگر ہم شام کے ملک کی طرف گئے تو خوارج کوفہ و بصرہ وغیرہ تمام عراق پر قابض و متصرف ہو کر ہمارے اہل و عیال کو قتل کر دیں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ خیال کیا کہ اگر خوارج نے کوفہ و بصرہ پر قبضہ کر لیا تو پھر ملک شام پر حملہ آوری بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہو گی، چنانچہ جنگ شام کو ملتوی کر کے خوارج کی طرف کوچ کیا اور لشکر خوارج کے قریب پہنچ کر ان کے پاس پیغام بھیجا تم میں سے جن لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیا ہے ان کو ہمارے سپرد کر دو تاکہ ہم ان کو قصاص میں قتل کر دیں اور تم کو تمہارے حال پر چھوڑ کر اہل شام کی طرف روانہ ہوں ، اس عرصہ میں جب تک کہ ہم جنگ اہل شام سے فارغ ہوں ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ کو راہ راست پر لے آئے۔ اس کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کئی بزرگ صحابیوں کو یکے بعد دیگرے خوارج کو نصیحت اور وعظ و پند کرنے کے لیے روانہ کیا اور خوارج کے وفود کو بلا کر خود بھی نصیحت کی کہ غلطی حکمین کے مقرر کرنے میں اگر ہوئی، تو باعث اصلی تم ہی لوگ تھے، اب جو کچھ گزرا اس کو فراموش کر دو اور ہمارے ساتھ شامل ہو کر اہل شام سے لڑنے چلو۔ خوارج نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ بے شک ہم لوگوں نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کی اور کافر ہوئے، لیکن توبہ کر کے پھر مسلمان ہو گئے، اب تم بھی جب تک گناہ کا اقرار کر