کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 588
عباس رضی اللہ عنہما کے پاس خط بھیجا کہ جنگ شام کے لیے جس قدر فوج ممکن ہو روانہ کر دو، بصرہ سے بھی خوارج چونکہ خارج ہو چکے تھے لہٰذا ان کے اس اخراج کو غنیمت سمجھا گیا کہ نہ یہ لوگ شہر میں ہوں گے نہ فساد برپا کریں گے، بصرہ میں اس وقت ساٹھ ہزار جنگجو موجود تھے، لیکن جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط لوگوں کو سنایا اور شام پر حملہ آور ہونے کے لیے ترغیب دی تو بڑی مشکل سے صرف تین ہزار ایک سو آدمی جانے کے لیے تیار ہوئے، باقی سب نے اس کان سنا اور اس کان اڑا دیا۔ کوفہ میں بھی لوگوں پر سرد مہری چھائی ہوئی تھی، جب بصرہ کی یہ تین ہزار فوج حارثہ بن قدامہ کی سرداری میں کوفہ پہنچی تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو جمع کر کے خطبہ دیا اور لوگوں کو لڑائی کے لیے آمادہ کیا، آخر کوفہ والے آمادہ ہو گئے، چالیس ہزار سے زیادہ لشکر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ خوارج کو بھی ایک مرتبہ پھر اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی جائے، چنانچہ انہوں نے نہروان میں عبداللہ بن وہب کے پاس خط بھیجا اور لکھا کہ تم شامیوں سے جنگ کرنے کے لیے ہمارے پاس چلے آؤ، ہم اسی پہلی رائے پر اور اہل شام سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں ، عبداللہ بن وہب نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ خط اپنے ساتھیوں کو سنایا اور سب کے مشورے سے یہ جواب لکھا۔ تم نے حکمین کا تقرر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کیا تھا اور اب جو اہل شام سے لڑائی کا ارادہ کر رہے ہو، یہ بھی اپنے نفس کی خواہش سے کر رہے ہو اگر تم اپنے کافر ہونے کا اقرار کرنے کے بعد توبہ کرو تو ہم تمہاری مدد کرنے کو تیار ہیں ، نہیں تو ہم تم سے لڑنے کو آمادہ ہیں ۔ اس خط کے آنے سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو خوارج کی طرف سے مایوسی ہو گئی، مگر انہوں نے ملک شام پر چڑھائی کرنے کے ارادے کو فسخ نہیں کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی تمام تر کوشش خوارج کو راہ راست پر لانے میں صرف ہوئی، لیکن وہ کسی طرح مصالحت کی جانب نہ آئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب ان سے یہ کہتے تھے کہ تم ہی لوگوں نے تو مجھ کو لڑائی بند کرنے کے لیے مجبور کیا تھا، اب تم کس منہ سے مجھ کو ملزم قرار دیتے ہو، تو وہ کہتے تھے کہ ’’ہم اپنی خطا اور غلطی کو تسلیم کرتے ہیں ، تم بھی اپنی خطاؤں کو تسلیم کرو،ہم مانتے ہیں کہ ہم غلطی کر کے کافر ہو گئے تھے، لیکن توبہ کر کے مسلمان ہو گئے، اسی طرح تم بھی توبہ کر کے مسلمان ہو جاؤ، تاکہ ہم اپنا فتویٰ جو تمہارے کفر کی نسبت صادر کر چکے ہیں واپس لے لیں ، نہیں تو ہم تم کو کافر یقین کرتے ہوئے تمہارے خلاف جہاد کریں گے۔ ان مجنونانہ باتوں کی طرف سے چشم پوشی اختیار کر کے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ملک شام پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہونے ہی کو تھے کہ سیّدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ صحابی رسول کے شہید ہونے کی خبر پہنچی،