کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 585
علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تھی، کوفہ میں پہنچ کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے تمام روداد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو سنائی، اور انہوں نے ابوموسیٰ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما دونوں کے فیصلے کو قرآن مجید کے خلاف بتا کر اس کے ماننے سے قطعاً انکار کیا اور معاویہ ، عمروبن العاص رضی اللہ عنہما، حبیب بن مسلمہ عبدالرحمن بن مخلد، ضحاک بن قیس، ولید اور ابو الاعور کے لیے بد دعا کی اور ان پر لعنت بھیجی اور اسی وقت سے ایک دوسرے پر لعنت کرنے کا سلسلہ جاری ہوا، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ مقام اذرج کی کارروائی سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف اس قدر فائدہ پہنچا کہ جو لوگ ان کے ساتھ شامل تھے پہلے وہ ان کو امیر المومنین اور مسلمانوں کا خلیفہ نہیں کہتے تھے اور اب وہ علانیہ ان کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ کہنے لگے، مگر کوئی نئی جماعت محض اذرج کی کارروائی کی بنا پر ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہوئی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے پہلے ہی سے دوگونہ مشکل تھی، اب وہ سہ گونہ ہو گئی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور شامیوں کو زیر کرنا اور خارجیوں کو قابو میں رکھنا یہ کام تو پہلے ہی سے درپیش تھے، اب تیسری مصیبت یہ پیش آئی کہ خود اپنے دوستوں اور معتقدوں کو یہ سمجھانا پڑتا تھا کہ حکمین نے چونکہ آپس میں بھی اختلاف کیا ہے لہٰذا ان کا کوئی فیصلہ نہیں مانا جا سکتا، دوسرے حکمین کو قرآن مجید نے یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خواہشات کی تائید کریں اور حق و راستی سے جدا ہو جائیں ، چند روز تک سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو یہی بات سمجھائی کہ حکمین کا فیصلہ ہرگز قابل تسلیم نہیں ہے اور ہم کو اہل شام پر چڑھائی کرنی چاہیے، جب یہ حقیقت لوگوں کی سمجھ میں آ گئی، اور وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام پر چڑھائی کرنے پر آمادہ ہونے لگے تو گروہ خوارج نے بھی جو کوفہ میں کافی تعداد کے ساتھ موجود تھا کروٹ لی۔ خوارج کی شورش: اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جس وقت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ حکمین کا فیصلہ سننے کے لیے چار سو آدمی مقام اذرج کی طرف بھیجنے لگے تھے توحرقوص بن زہیر نے کہا تھا، کہ آپ اب بھی اپنی پنچایت کی کارروائی میں حصہ نہ لیں اور ملک شام پر چڑھائی کریں ، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کے ماننے سے صاف انکار فرما دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم بدعہدی نہیں کر سکتے اور اپنے تحریری اقرار نامہ سے نہیں پھر سکتے، اب حرقوص اور تمام خوارج نے جب دیکھا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پنچایت اور پنچوں کے فیصلے کو بے حقیقت اور ناقابل التفات ثابت کر کے لوگوں کو ملک شام پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں توزرعہ بن