کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 584
آسان نہیں ہے۔ بہرحال دونوں صاحبوں نے مجمع کے سامنے وہ تقریریں جو اوپر ہو چکی ہیں کیں ، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور دوسرے حضرات نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ملامت کرنا شروع کی کہ تم فریب کھا گئے اور ابوموسیٰ نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو سخت سست کہا کہ تم نے قرار داد باہمی کے خلاف اظہار رائے کیا اور مجھ کو دھوکا دیا۔ غرض فوراً مجلس کا سکون درہم برہم ہو کر بدنظمی کی کیفیت پیدا ہو گئی، شریح بن ہانی نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ پر تلوار کا وار کیا، عمرو بن العاص نے بھی اپنے آپ کو بچا کر شریح پر جوابی وار کیا، لوگ درمیان میں آ گئے اور لڑائی کو بڑھنے نہ دیا۔ اس مجلس میں بدنظمی اور افراتفری پیدا ہو جانے کا نتیجہ بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بہتر اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے مضر ثابت ہوا، کیونکہ اب شامی و عراقی دونوں گروہوں کا ایک جگہ رہنا دونوں طرف کے سرداروں کی نگاہ میں مضر تھا، لہٰذا نہ ان آٹھ سو مسلمانوں کی جمعیت اب کوئی تجویز اتفاق رائے سے پاس کر سکتی تھی نہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم ۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ دل برداشتہ ہو کر اذرج سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور عمرو بن العاص بھی وہاں سے اپنی جمعیت کو ہمراہ لے کر فوراً دمشق کی جانب روانہ ہو گئے، شریح اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے ہمرائیوں کے ساتھ کوفہ کی جانب کوچ کیا، مکہ اور مدینہ سے جو چند حضرات یہاں آئے تھے وہ بھی متاسف حالت میں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے، غرض تھوڑی ہی دیر میں اذرح کی انجمن درہم برہم ہو کر چڑیاں سی اڑ گئیں ۔ شامی لوگ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ہمراہ خوشی خوشی دمشق کو جا رہے تھے اور انہوں نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین کہنا شروع کر دیا تھا، دمشق میں پہنچ کر شامیوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کامیابی کی خوش خبری سنائی اور ان کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی۔ عراقی جمعیت جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور شریح بن ہانی کے ہمراہ کوفہ کو جا رہی تھی اس کی حالت شامیوں کے خلاف تھی، یہ آپس میں ایک دوسرے کو برا کہتے اور جھگڑتے تھے کوئی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ملزم ٹھہراتا اور برا کہتا کوئی ابو موسیٰ کی تائید کرتا اور بے خطا ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا، کوئی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہتا اور حکمین کے تقرر پر رضا مندی ظاہر کرنے کے فعل کو غلطی بتاتا اور کوئی اس رائے کی مخالفت کر کے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا۔ غرض ان چار سو آدمیوں کی حالت بالکل وہی تھی جو صفین سے کوفہ کی طرف جاتے ہوئے سیّدنا