کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 583
دوست سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا، میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ بحال رکھتا ہوں ، کیونکہ وہ مظلوم شہید ہونے والے خلیفہ کے ولی اور ان کی قائم مقامی کے مستحق ہیں ۔‘‘ اگر سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی رائے کی تمام و کمال تائید کرتے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں کچھ نہ فرماتے تو حکمین کے فیصلے کی وہ بے حرمتی جو بعد میں ہوئی ہرگز نہ ہوتی، سیّدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایا اس میں بھی گو کمزوری اور غلطی موجود ہو گی، لیکن کم از کم بد دیانتی اور خیانت کا شائبہ اس میں نہ تھا، اس سے آٹھ سو مسلمانوں کے مجمع کو بھی غالباً کوئی اختلاف نہ ہوتا، کیونکہ کسی ایک خلیفہ کے انتخاب کا اختیار حکمین کی طرف سے ان ہی آٹھ سو آدمیوں کو دیا گیا تھا۔ مگر جو کچھ بعد میں ہوا یہ سب کچھ پھر بھی ہونے والا تھا اور ممکن تھا، کہ اس فیصلے سے اس سے بھی زیادہ خرابیاں مسلمانوں کے لیے پیدا ہوتیں ، کیونکہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی معزولی کو تسلیم کرنے سے یقینا انکار فرماتے،اسی طرح سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ملک شام کی حکومت اور اپنے مطالبات سے دست بردار نہ ہوتے اور ایک تیسرا خلیفہ یا امیر جس کو یہ مجمع منتخب کرتا سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا تھا، اس طرح بجائے دو رقیبوں کے تین شخص پیدا ہو جاتے اور مسلمانوں کی تباہی و ہوا خیزی اور بھی ترقی کر جاتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مصالحت پر آمادہ نہ تھے اگر وہ مصالحت کے خواہاں ہوتے تو جنگ صفین میں بڑی لڑائی شروع ہونے سے پیشتر جب کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصالحت کی کوشش کی گئی تھی، وہ صلح کی یہی صورت یعنی طرفین سے ایک ایک حکم مقرر کرنے کی درخواست پیش کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے یہ خواہش اس وقت پیش کی جب کہ ان کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا تھا، لہٰذا ان کی طرف سے پنچوں کے تقرر کی خواہش کا پیش ہونا اور ہذا کتاب اللّٰہ بیننا و بینکم کا اعلان کرنا مصیبت کو دور کرنے اور شکست سے بچنے کے لیے ایک جنگی تدبیر اور خدعہ حرب کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اسی طرح سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس پنچایت کی تجویز کو بطیب خاطر نہیں مانا تھا، وہ تو اس کے خلاف تھے، مگر لوگوں نے ان کو مجبور کر کے اور دھمکیاں دے کر اشتر کو واپس بلوایا اور لڑائی کو ختم کرایا تھا، لہٰذا یہ یقین کر لینا کہ اگر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مجمع عام میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بیان کی حرف بحرف تائید کرتے اور دونوں حضرات کو معزول کر دیتے تو دونوں اس فیصلے کو تسلیم کرتے یا نہ کرتے،