کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 581
ہوتے تھے، چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کے تمام ہمراہی ناخوش ہو گئے اور علانیہ ان کی شکایتیں کرنے لگے کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کے خطوط کو چھپاتے ہیں اور باتیں ہم کو نہیں سناتے۔ الغرض! عبداللہ بن عمر ،عبدالرحمن بن ابی بکر ، عبداللہ بن زبیر ، عبدالرحمن بن الحرث، عبدالرحمن بن عبد یغوث زہری ، ابوجہم بن حذیفہ ، مغیرہ بن شعبہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم حضرات جب سب اذرج میں پہنچ گئے، تو ان خاص الخاص اور نامور حضرات کی ایک محدود مجلس منعقد ہوئی اور اس میں ابو موسیٰ اشعری اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے، اس صحبت خاص میں عمروبن العاص اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کی گفتگو شروع ہوئی۔ عمرو بن العاص نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما سے اوّل اس بات کا اقرار کرایا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ مظلوم قتل کیے گئے، پھر اس بات کا بھی اقرار کرایا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہم جد ہونے کی حیثیت سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ کرنے میں حق پر ہیں ۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کبھی ان کے خلاف اپنی رائے ظاہر نہیں کی تھی اور ان کے تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہ ہوا۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مسئلہ خلافت کو چھیڑا اور کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قریش کے ایک شریف اور نامور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں ، صحابی بھی ہیں اور کاتب وحی بھی۔ ان باتوں کو سن کر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان خصوصیات سے مجھ کو انکار نہیں ، لیکن امت مرحوم کی امارت ان کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ یا دوسرے محترم حضرات کی موجودگی میں کیسے سپرد کی جا سکتی ہے، یہ باتیں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ میں فائق تر موجود ہیں ، یعنی وہ رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی قریب ہیں ، شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور سرداران قریش میں شمار ہوتے ہیں ، علم، شجاعت، تقویٰ وغیرہ صفات میں بھی وہ خاص طور پر ممتاز ہیں ۔ عمرو بن العاص نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہما میں انتظامی قابلیت اور سیاست دانی زیادہ ہے۔ ابو موسیٰ نے کہا تقویٰ اور ایمانداری کے مقابلہ میں یہ چیز قابل لحاظ نہیں ، غرض اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں ، آخر ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ میری تو رائے یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کر کے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خلیفہ بنا دیا جائے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس وقت آنکھیں بند کیے ہوئے اپنے کسی خیال میں محو بیٹھے تھے، انہوں نے اپنا نام سن کر اور آنکھیں کھول کر بلند آواز سے کہا کہ… مجھ کو