کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 580
کیجئے اور قیامت کے دن کو یاد رکھئے۔
اسی طرح سیّدنا امیر معاویہ نے بھی عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کو چار سو آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا۔
اس فیصلے کے سننے اور مقام اذرج کی مجلس میں شریک ہونے کے لیے مکہ اور مدینہ سے بھی بعض با اثر بزرگوں کو تکلیف دی گئی اور انہوں نے مسلمانوں کا اختلاف باہمی رفع کرنے کی کوشش میں شریک ہونے سے انکار نہ کیا، چنانچہ سیّدنا عبداللہ بن عمر عبداللہ بن زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم وغیرہ کئی حضرات تشریف لے آئے، اذرج میں جمع ہونے کے بعد لوگوں کو سخت انتظار تھا کہ کیا فیصلہ سنایا جاتا ہے، لیکن مقام اذرج میں حکمین نے جاتے ہی فیصلہ نہیں سنایا، بلکہ وہاں آپس میں حکمین کو خود بھی ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرنا تھا اور مکہ اور مدینہ کے بزرگوں کا انتظار بھی ضروری تھا۔
جس وقت سیّدنا علی ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ سے اذرج کی طرف روانہ کرنے لگے تھے تو خوارج کی طرف سے حرقوص بن زہیر نے آکر سیّدنا علی کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے ثالثی فیصلے کو تسلیم کرنے میں بڑی غلطی کی ہے۔ اب بھی آپ باز آ جائیں اور دشمنوں کی طرف لڑائی کے ارادہ سے کوچ کریں ، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اقرار نامہ کے خلاف بدعہدی پر آمادہ نہیں ہو سکتا، یہ وہی حرقوس بن زہیر ہے جو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ قتل کے ہنگامہ میں بلوائیوں کا خاص الخاص سردار تھا اور اب خارجیوں کے گروہ میں بھی سرداری کا مرتبہ رکھتا تھا، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سیّدنا علی جلد جلد اور روزانہ خطوط روانہ کرتے رہتے تھے، اسی طرح سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی عمروبن العاص کے پاس روانہ بذریعہ قاصد اور خطوط پیغامات بھیجتے رہتے تھے۔
یہ معاملہ ہی ایسا تھا کہ دونوں صاحبوں کو اس کا خاص خیال ہونا چاہیے تھا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطوط عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام آتے تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خطوط عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے نام، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں میں ضبط و نظام اعلیٰ درجہ کا تھا، وہ سب کے سب عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے فرماں بردار تھے، اور ان میں سے کسی کو بھی اس کا خیال تک نہ آتا تھا کہ عمروبن العاص ب سے یہ دریافت کریں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو کیا لکھا ہے، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے چار سو آدمیوں کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی، وہ روزانہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط آنے پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے گرد جمع ہو جاتے تھے، ہر شخص پوچھتا تھا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کیا لکھا ہے، اس طرح کوئی بھی بات صیغہ راز میں نہیں رہ سکتی تھی اور فوراً اس کی شہرت ہو جاتی تھی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سخت مصیبت میں گرفتار تھے، بعض باتوں کو وہ پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے اور بیان کرنے میں تامل کرتے تھے،تو لوگ ان سے ناراض