کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 577
نے زوجین کے معاملہ میں حکمین کے تقرر کا حکم دیا ہے، کوئی کہتا تھا کہ اس معاملہ کو زوجین کے معاملہ سے تشبیہ دینا غلطی ہے، یہ معاملہ ہم کو خود اپنی قوت بازو سے طے کرنا چاہیے تھا۔ کبھی کوئی اعتراض کرتا تھا کہ حکمین کا عادل ہونا ضروری ہے، اگر وہ عادل نہیں ہیں تو پھر ان کو حکم کیوں تسلیم کیا، پھر کوئی کہتا تھا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ ملتوی کرنے اور اشتر کے واپس بلانے کا جو حکم دیا وہ ناجائز تھا، اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے تھا، اس کے جواب میں دوسرا کہتا تھا کہ ہم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، ان کا ہر ایک حکم ماننا ہمارا فرض ہے، یہ سن کر فوراً تیسرا بول اٹھتا تھا کہ ہم ہرگز کوئی ان کا نامناسب حکم نہ مانیں گے، ہم مختار ہیں ، عقل و فہم رکھتے ہیں ، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اس کے سوا ہم اور کسی کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتے، یہ سن کر کچھ لوگ کہنے لگتے تھے کہ ہم ہر حالت میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں اور ان کی اطاعت کو فرض اور عین شریعت سمجھتے اور ان کی نافرمانی کو کفر جانتے ہیں ، یہ باتیں بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہر منزل پر آپس میں گالی گلوچ اور مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ لشکر کی اس ابتر حالت کو اصلاح پر لانے اور لوگوں کو سمجھانے کی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ہر چند کوشش فرماتے تھے، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی کوششیں حسب منشاء نتائج پیدا نہ کر سکیں ، وہ لشکر جو کوفہ سے صفین سے جاتے ہوئے بالکل متفق اور یک دل نظر آتا تھا اب صفین سے کوفہ کو واپس ہوتے ہوئے اس کی عجیب و غریب حالت تھی، تشت و افتراق کا اس میں ایک طوفان موجزن تھا اور اختلاف آراء نے اختلاف و عداوت کی شکل اختیار کر کے فوج کے ضبط و نظام کو بالکل درہم برہم کر دیا تھا، بیسوں گروہ تھے جو بالکل الگ الگ خیالات و عقائد کا اظہار کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو برا کہنے، طعن و تشنیع کرنے، چابک رسید کر دینے اور شمشیر و خنجر کی زبان سے جواب دینے میں بھی تامل نہ کرتے تھے۔ لیکن ان میں دو گروہ زیادہ اہمیت رکھتے اور اپنی تعداد اور جوش و خروش کے اعتبار سے خصوصی طور پر قابل توجہ تھے، ایک وہ جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملزم ٹھہراتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو مطلق ضروری نہیں سمجھتے تھے اور دوسرے وہ جو پہلے گروہ کی ضد میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو معصوم عن الخطاء کہتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری پر بھی ترجیح دینے کے لیے تیار تھے، پہلا گروہ خوارج اور دوسرا شیعان علی رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوا، لطف کی بات یہ ہے کہ خوارج کے گروہ میں وہی لوگ امام اور لیڈر تھے جنہوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا تھا اور کہا تھا کہ جلد اشتر کو واپس بلائیے اور لڑائی کو ختم کیجئے ورنہ ہم آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا،