کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 576
کے جان و مال اور اہل و عیال سب محفوظ اور امن میں ہوں گے، دونوں لشکروں نے بخوشی اس کا اقرار کیا، اس کے بعد اقرار نامہ کی دو نقلیں تیار کی گئیں ، ان پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اشعث بن قیس، سعد بن قیس ہمدانی، ورقاء بن سیمی، عبداللہ ابن فحل عجلی، حجر بن عدی کندی، عبداللہ بن الطفیل عامری، عقبہ بن زیاد حضرمی، یزید بن خجیمہ تمیمی اور مالک بن کعب ہمدانی نے بطور گواہ اور ضامن کے دستخط کیے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابوالاعور سلمی، حبیب بن مسلمہ، دائل ابن علقمہ عدوی، حمزہ بن مالک ہمدانی، عبدالرحمن بن خالد مخزومی، سبیع بن یزید انصاری، عتبہ بن ابوسفیان، یزید بن الحر عبسی کے دستخط ہوئے۔ جب دونوں نقلیں مکمل ہو گئیں ، تو ایک ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو دی گئی اور دوسری عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جن لوگوں نے بطور ضامن دستخط کیے ان میں سے مالک اشتر سے دستخط کے لیے کہا گیا، لیکن اس نے دستخط کرنے سے صاف انکار کیا، اشعث بن قیس نے اصرار کیا تو دونوں میں سخت کلامی تک نوبت پہنچی مگر کوئی فساد نہ ہونے پایا۔ اقرار نامہ کے مکمل اور دوسری متعلقہ باتوں کے طے ہونے میں چار دن صرف ہو گئے، ۱۳ ماہ صفر کو اقرار نامے حکمین کے سپرد کیے گئے اور دونوں لشکر میدان صفین سے سفر کی تیاری کر کے کوفہ اور دمشق کی جانب روانہ ہوئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوچ و مقام کرتے ہومے بخیرت دمشق پہنچ گئے، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے اسی وقت سے ایک اور نئے فتنے کا دروازہ کھل گیا۔ فتنہ خوارج: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب ۱۳ ماہ صفر ۳۷ ھ کو میدان صفین سے کوفہ کی طرف واپسی کا قصد کیا تو کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ واپسی کا ارادہ فسخ کر دیں اور شامیوں پر حملہ آور ہوں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا، کہ میں اقرار نامہ لکھنے کے بعد کیسے بد عہدی کر سکتا ہوں ، اب ہم کو ماہ رمضان تک انتظار کرنا اور صلح کے بعد جنگ کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے، یہ سن کر وہ لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے، لیکن الگ ہو کر اپنے ہم خیال لوگوں کو ترغیب دی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے جدا ہو کر اپنی راہ الگ اختیار کرنی چاہیے، چنانچہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب لشکر کوفہ لے کر روانہ ہوئے تو راستہ بھر لشکر علی رضی اللہ عنہ میں ایک ہنگامہ اور تو تو میں برپا تھی، کوئی کہتا تھا کہ پنچایت کا مقرر کرنا اچھا ہوا، کوئی کہتا تھا برا ہوا، کوئی کہتا تھا اس معاملہ میں پنچایت کا مقرر ہونا شرعاً جائز ہے، کوئی کہتا جائز نہیں ہے، کوئی جواب دیتا تھا کہ اللہ تعالیٰ تعالی