کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 575
اقرار نامہ کی تحریر اور میدان جنگ سے واپسی:
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سیّدنا علی کی خدمت میں حاضر ہو کر اقرار نامہ تحریر کرنے کے لیے عرض کیا، چنانچہ اسی وقت مندرجہ ذیل اقرار نامہ لکھا گیا۔
یہ اقرار نامہ ہے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے درمیان۔
علی بن ابی طالب نے اہل کوفہ اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک منصف یا پنچ مقرر کیا ہے اور اسی طرح معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے اہل شام اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک پنچ مقرر کر دیا ہے، ہم اللہ تعالیٰ تعالی کی کتاب اور اس کے حکم کو قاضی قرار دے کر اس بات کا اقرر کرتے ہیں کہ حکم اللہ تعالیٰ اور کتاب اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو دخل نہ دیں گے، ہم الحمد سے لے کر والناس تک تمام قرآن شریف کو مانتے اور وعدہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف جن کاموں کے کرنے کا حکم دے گا اس کی تعمیل کریں گے اور جن سے منع کرے گا ان سے رک جائیں گے، دونوں پنچ جو مقرر ہوئے ہیں ، ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ہیں ، یہ دونوں جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اسی کے موافق فیصلہ کریں گے اور اگر کتاب اللہ میں نہ پائیں گے تو سنت عادلہ جامعہ غیر مختلف فیہا پر عمل کریں گے۔
اس کے بعد حکمین یعنی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے اقرار لیا گیا کہ ہم خدائے تعالی کو حاضر و ناظر سمجھ کر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق صحیح فیصلہ کریں گے اور امت مرحومہ کو جنگ و فساد اور تفرقہ میں مبتلا نہ کریں گے، اس کے بعد رمضان تک یعنی چھ مہینے کی مہلت حکمین کو دی گئی کہ اس مدت کے اندر اندر ان کو اختیار ہے کہ جب چاہیں فریقین کو اطلاع دے کر مقام اذرج متصل دومۃ الجندل، جو دمشق و کوفہ کے درمیان دونوں شہروں کے برابر فاصلہ پر ہے، آ کر اپنا فیصلہ سنا دیں اور اس عرصہ میں زیر بحث مسئلہ کے متعلق اپنی تحقیقات کو مکمل اور اپنے خیالات کو مجتمع کر لیں ، یہ بھی تجویز ہوا کہ جب کوفہ سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور دمشق سے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مقام اذرج کی طرف فیصلہ سنانے کے لیے روانہ ہوں تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چار سو آدمی اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عمروبن العاص کے ہمراہ چار سو آدمی روانہ کریں ، یہ آٹھ سو آدمی تمام مسلمانوں کے قائم مقام سمجھے جائیں گے جن کو حکمین اپنا فیصلہ سنا دیں گے۔
ان مذکورہ باتوں کے طے ہو جانے کے بعد قرار داد کے موافق سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام لشکر سے اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام لشکر سے اس بات کا اقرار لیا کہ فیصلہ سنانے کے بعد حکمین