کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 574
لوگوں میں یہاں تک لڑائی کے خلاف جوش پیدا ہو چکا تھا کہ انہوں نے اشتر پر حملہ کرنا چاہا، مگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹنے اور روکنے سے وہ رک گئے، اس کے بعد اشعث بن قیس نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ امیرالمومنین ! لوگوں نے قرآن کو حکم تسلیم کر لیا اور لڑائی بند ہو گئی، اب اگر آپ اجازت دیں تو میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کا منشائے دلی معلوم کروں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اجازت دی، وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ تم نے قرآن شریف کو کس غرض سے نیزوں پر بلند کیا تھا، انہوں نے جواب دیا ہم اور تم دونوں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف رجوع کریں ایک شخص کو ہم اپنی طرف سے منتخب کریں اور ایک کو تم اپنی طرف سے مقرر کر دو، ان دونوں سے حلف لیا جائے کہ وہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے، اس کے بعد وہ جو فیصلہ کریں ، اس پر ہم تم دونوں راضی ہو جائیں ۔ اشعث بن قیس یہ سن کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں واپس آئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جو کچھ سنا تھا وہ سب بیان کر دیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اردگرد جس قدر لوگ موجود تھے، یہ سن کر ان سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم اس بات پر راضی ہیں اور ایسے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں ۔ اس کے بعد سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام سے دریافت کیا گیا کہ تم اپنی طرف سے کس کو حکم منتخب کرتے ہو، انہوں نے کہا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو، اب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ ہماری طرف سے کون حکم مقرر کر دیا جائے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو پسند کرتا ہوں ، ان کے اہل مجلس نے کہا کہ عبداللہ بن عباس آپ کے رشتہ دار ہیں ہم ایسے شخص کو حکم مقرر کرنا چاہتے ہیں جس کا آپ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے یکساں تعلق ہو، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا تم بتاؤ کس کو پسند کرتے ہو، لوگوں نے کہا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بہت مناسب سمجھتے ہیں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ثقہ نہیں سمجھتا، تم اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کو میرا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے انتخاب نہیں کرتے ہو تو مالک اشتر کو مقرر کر دو وہ میرا رشتہ دار بھی نہیں ہے، لوگوں نے کہا کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ملی ہے، وہ صحابی ہیں اور مالک اشتر اس شرف سے محروم ہے، لہٰذا ہم اس کو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ آخر سیّدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اشعری رضی اللہ عنہ حکم تجویز ہو گئے۔ ابھی یہ مجلس برپا ہی تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیّدنا عمرو رضی اللہ عنہ اقرار نامہ لکھنے کے لیے آ گئے۔