کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 572
گیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب اشتر کو کامیاب حملہ کرتے اور اس کے علم کو دم بدم آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو ادھر سے اپنے رکابی سواروں کے کمکی دستے یکے بعد دیگرے پیہم بھیجنا شروع کیے، تاکہ اس حملہ کی ترقی کسی جگہ رکنے نہ پائے اور اشتردم بدم زیادہ طاقت ور ہوتا جائے۔
اس تدبیر کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا، شامی فوج کا علمبردار بھی اشتر کے ہاتھ سے مارا گیا اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی فرود گاہ کے سامنے کشت و خون ہونے لگا، اشتر کے حملہ آور ہونے کے وقت شدت جنگ کی وجہ سے دونوں فوجوں کا پھیلاؤ سمٹ چکا تھا، میمنہ اور میسرہ اپنے اپنے قلب کے ساتھ مل کر ایک ہو گئے تھے اور پوری تیزی سے ایک دوسرے کے قتل کرنے میں مصروف تھے، اگر میمنہ اور میسرہ پھیلے ہوئے ہوتے اور لڑائی کے مرکز ہوتے تو اشتر کا یہ حملہ کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ فوج کے ایک حصے کا زور بآسانی دوسرے حصے کی جانب منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا اور سپہ سالار اعظم کوئی نہ کوئی تدبیر نکال سکتا تھا، لیکن یہ حملہ ایسے صحیح موقع اور مناسب وقت پر کیا گیا تھا کہ شامی لشکر کی شکست میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔
لشکر شام کے سردار حریف کو اپنے قلب میں چیرہ دست اور اپنے علمبردار کو مقتول دیکھ کر حواس باختہ ہو چکے تھے، ساری کی ساری طاقت اپنے مدمقابل سے زور آزمائی میں مصروف تھی اور ان اچانک آ پڑنے والے حملہ آوروں کی مدافعت کے لیے کوئی محفوظ طاقت باقی نہ تھی، ابھی تک شامیوں نے میدان جنگ سے منہ نہیں موڑا تھا اور ابھی تک وہ کسی طرح شکست خوردہ نہیں کہے جا سکتے تھے، لیکن ان کے شکست پانے اور ہزیمت یافتہ ہونے میں اب گھنٹوں کی نہیں بلکہ منٹوں کی دیر تھی کہ سیّدنا عمروابن العاص رضی اللہ عنہ کی انگشت تدبیر کے ایک اشارے نے نتیجہ جنگ کو ادھر سے ادھر پلٹ دیا:
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا!
خاتمہ جنگ:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اشتر کے کامیاب حملہ کو دیکھ کر جس قدر مسرورو مطمئن تھے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسی قدر پریشان و حواس باختہ ہو رہے تھے، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب دیکھتے کیا ہو لوگوں کو حکم دو کہ وہ فوراً تیروں پر قرآن مجید کو بلند کریں اور بلند آواز سے کہیں ہذا کتاب اللہ بیننا و بینکم (ہمارے تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ تعالی کی کتاب قرآن مجید موجود ہے) چنانچہ فوراً یہ حکم دیا گیا اور اہل شام نے نیزوں پر قرآن شریف کو بلند کر کے کہنا شروع کیا کہ ہم کو قرآن شریف کا فیصلہ منظور ہے، بعض حصوں سے آواز آتی تھی کہ مسلمانوں ہماری لڑائی دین کے لیے ہے آؤ قرآن کریم کے فیصلے کو منظور کر