کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 571
میں مسلمانوں پروارد ہوئی، ستر ہزار ایسے بے نظیر بہادروں کو قتل کرا کر تو مسلمان نہ صرف اس زمانہ کی ساری دنیا بلکہ ایسی ایسی کئی دنیاؤں کو فتح کر سکتے تھے۔ جب دوپہر ڈھل گئی تو مالک اشتر نے اپنے متعلقہ حصہ فوج کا چارج عیان بن ہوذہ کو سپرد کیا اور خود سواروں کی جمعیت کو ایک طرف لے جا کر اہل شام پر حملہ کرنے اور جان دینے کی ترغیب دی، سواروں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم فتح حاصل کیے یا جان دیئے بغیر واپس نہ آئیں گے۔ سواروں کا ایک دستہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی رکاب میں رہا اور بڑے حصے کو اشتر نے لے کر ایک مناسب سمت سے شامی لشکر پر حملہ کیا، لڑائی کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ وقت بھی بہت ہی مناسب آ گیا تھا، کیونکہ اب تک کی لڑائی میں اگرچہ پہلے دن یعنی جمعرات کے روز شامی لشکر چیرہ دست اور غالب نظر آتا تھا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی حالت جمعرات کے دن شام تک ایسی خطرناک تھی جس سے گمان ہو سکتا تھا کہ شکست ان ہی کے حصے میں آئے گی اور لشکر شام فتح مند ہو جائے گا، لیکن رات کے معرکہ میں شامیوں کے زیادہ آدمی مارے گئے اور اب جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے تک اگرچہ لڑائی کانٹے کا تول برابر تلی ہوئی نظر آتی تھی، مگر شامیوں کے نصف سے زیادہ آدمی مارے جا چکے تھے اور ان کی تعداد اب بجائے اسی ہزار کے صرف ۳۵ ہزار کے باقی رہ گئی تھی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں اب تک بیس پچیس ہزار آدمی مارے گئے تھے،[1] اور ان کی تعداد ساٹھ ہزار باقی تھی، یعنی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد اب سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد سے دگنی تھی۔ ایسی حالت میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے موقع تھا کہ وہ دشمن کو مصروف جنگ رکھتے ہوئے اپنی فوج کے ایک معقول حصے کو جدا کر کے مصروف و مشغول دشمن کے پہلو یا پشت پر ایک زبردست ضرب لگائیں کہ اس کا کام تمام ہو جائے اور لڑائی کا نتیجہ فتح کی شکل میں فوراً برآمد ہو جائے، چنانچہ مالک اشتر نے اپنے فدائی سواروں کے ساتھ ایک نہایت ہیبت ناک حملہ کیا یہ حملہ سواروں ہی کے ذریعہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ جو فوج تیس یا بتیس گھنٹہ سے برابر مصروف جنگ تھی، اس کے سپاہیوں میں جسمانی طاقت بہت کچھ ضعف و تکان کے سبب مغلوب ہو چکی ہو گی، ایسے سپاہیوں کے حملے میں مرعوب کن شان کا پیدا کرنا آسان نہ تھا، لیکن گھوڑوں کو اب تک زیادہ کام نہ کرنا پڑا تھا اور وہ پیدل سپاہیوں کی نسبت یقینا تازہ دم تھے۔ اشتر نے برق و باد کی طرح حملہ کیا، صفوں کو ریلتا دھکیلتا اور روندتا ہوا شامیوں کے قلب لشکر تک پہنچ
[1] یہ غیر معقول تجزیہ ہے، طبری کی روایت بتاتی ہے کہ لشکر علی کے مقتولین کی تعداد لشکر معاویہ کے مقتولین کی تعداد سے دگنا تھی، لشکر علی کے چالیس ہزار اور لشکر معاویہ کے بیس ہزار آدمی مارے گئے تھے۔