کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 570
یاسر رضی اللہ عنہ اپنے فدائی گروہ کو لیے ہوئے لشکر شام کے قلب پر حملہ آور ہوئے، اب دن ختم ہو کر رات شروع ہو گئی تھی، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا یہ حملہ نہایت سخت تھا جس کو عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے بڑی مشکل سے روکا، خوب تلوار چلی اور آخرکار سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ اسی لڑائی میں کام آئے۔ عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کے مارے جانے کی خبر جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو سخت صدمہ ہوا اور اس کے بعد لشکر اہل شام کا بھی ہر حصہ مصروف جنگ ہو گیا، تلواروں کی خچاخچ اور نیزوں کی طعن و ضرب، نیز رجز خوانوں کی آوازوں اور لڑانے والوں کی تکبیروں سے تمام عرصہ شب معمور رہا، یہ رات جمعہ کی رات تھی، لیلۃ الہریر کے نام سے مشہور ہے، اسی شب میں سیّدنا اویس قرنی رحمہ اللہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کبھی میمنہ میں ہوتے تھے، کبھی میسرہ میں نظر آتے اور کبھی لشکر میں شمشیر زنی کرتے ہوئے دیکھے جاتے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میسرہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور اشتر نے میمنہ کو سنبھال رکھا تھا، اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور دوسرے سرداروں نے لشکر شام کو مصروف جنگ رکھا، ساری رات اسی جنگ و پیکار میں بسر ہو گئی، دن کے بعد رات بھی ختم ہو گئی، مگر لڑائی کے ختم ہونے کی کوئی صورت ظاہر نہ ہوئی، جمعہ کا دن شروع ہوا اور آفتاب افق مشرق سے طلوع ہوا، تو اس نے غروب ہوتے وقت دونوں لشکروں کو جس طرح مصروف قتال چھوڑا تھا اسی طرح مصروف قتال دیکھا۔ لیلۃ الہریر کی جنگ و پیکار میں ایک قابل تذکرہ واقعہ یہ بھی ہوا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بارہ ہزار سواروں کا زبردست دستہ لیے ہوئے اس سرعت و قوت سے حملہ آور ہوئے کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خیمے تک پہنچے گئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہا کہ مسلمانوں کو قتل کرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، آؤ ہم دونوں میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں ، ہم میں جو کامیاب ہو وہی خلیفہ ہو جائے گا، اس آواز کو سن کر عمروبن العاص نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بات تو معقول ہے آپ کو مقابلے کے لیے نکلنا چاہیے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس فیصلے کو تم اپنے لیے کیوں پسند نہیں کرتے، کیا تم کو معلوم نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ پر جو شخص میدان میں نکلتا ہے وہ جان بر نہیں ہوتا، پھر ہنس کر کہا کہ شاید تم مجھ کو اس لیے مقابلہ پر بھیجتے ہو کہ میں مارا جاؤں اور میرے بعد تم ملک شام کے مالک بن بیٹھو، غرض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی جواب نہیں دیا گیا اور وہ اپنے لشکر کی طرف تشریف لے آئے۔ جمعہ کے دن بھی دوپہر تک بدستور لڑائی جاری رہی، اب تلوار چلتے ہوئے مسلسل تیس گھنٹے سے زیادہ مدت گزر چکی تھی، اس تیس گھنٹہ میں ستر ہزار کے قریب آدمی طرفین سے مارے جا چکے تھے، اسلام کی اتنی بڑی طاقت کا آپس میں لڑ کر ضائع ہونا سب سے بڑی مصیبت تھی جو اس تیس گھنٹہ کی منحوس مدت