کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 569
نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مصروف جنگ دیکھ کر ان پر حملہ کیا مگر اہل ربیعہ نے ان کے حملے کو روک لیا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تک انہیں نہ پہنچنے دیا۔ اشتر نے بھی ادھر میمنہ کی حالت کو سنبھال لیا اور لڑائی کا عنوان جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے بہت خطرناک ہو چکا تھا، کسی قدر درست ہوا اور طرفین نے میدان میں جم کر تلواریں چلانی شروع کیں ، عصر کے وقت تک برابر تلوار چلتی رہی، عصر کے قریب مالک اشتر نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ کو دبا کر پیچھے ہٹایا، لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رکابی فوج نے جو مرنے پر بیعت کر چکی تھی اپنے میسرہ کو سہارا دیا، اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے میمنہ کو دھکیل کر دور تک پیچھے ہٹا دیا۔[1] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبداللہ بن حصین جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں میں سے تھے رجز پڑھتے ہوئے آگے نکلے، مخالف سمت سے عقبہ بن حدیبہ نمیری نے بڑھ کر مقابلہ کیا، عقبہ کے مارے جانے پر شامیوں کی طرف سے سخت حملہ ہوا اور اہل عراق کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا، لیکن وہ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ سیدنا علی کرم رضی اللہ عنہ میسرہ کی طرف سے میمنہ والوں کی ہمت بندھانے اور ان کو لڑائی کی ترغیب دینے کے لیے تشریف لائے، یہاں خوب جم کر نہایت زور و شور سے تلوار چل رہی تھی، ادھر ذوالکلاح حمیری اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے میسرہ پر اس شدت سے حملہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کا حکم بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا اور کشتوں کے پشتے لگ گئے، میسرہ کی اس تباہ حالت کو دیکھ کر عبدالقیس نے آگے بڑھ کر ربیعہ کو سنبھالا اور اہل شام کی پیش قدمی کو روکا، اس بروقت امداد سے میسرہ کی حالت پر سنبھل گئی اور اتفاق کی بات کہ ذوالکلاح حمیری اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دونوں لڑائی میں کام آئے۔ غرض صبح سے شام تک میمنہ و میسرہ سے بڑے زور و شور سے تلوار چلتی رہی مگر دونوں فوجوں کے قلب ابھی تک ہنگامہ کار زار کے شور وغل سے خالی اور خاموش تھے، آخر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہو اور اس کو مال و اولاد کی طرف واپس جانے کی خواہش نہ ہو وہ میرے ساتھ آ جائے وہ یہ کہتے ہوئے چلے اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ مارنے اور مرنے پر مستعد ہو کر شامل ہو گئے، آخر وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے علمبردار بن عتبہ کے پاس پہنچے، وہ بھی علم لیے ہوئے ان کے ساتھ ہو لیے، عمار بن
[1] میمنہ، میسرہ اور مقدمۃ الجیش جنگی فوج کی اصطلاحات ہیں ۔ فوج کے اگلے حصے کو مقدمۃ الجیش، دائیں حصے کو میمنہ اور بائیں حصے کو میسرہ کہتے ہیں ۔