کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 568
بن مسلمہ رضی اللہ عنہ میسرہ کے اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میمنہ کے افسر تھے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا میمنہ اوّل آگے بڑھا اور عبداللہ بن بدیل خزاعی نے اپنی ماتحت فوج یعنی میمنہ کو لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ یعنی حبیب بن مسلمہ پر حملہ کیا، یہ حملہ اگرچہ نہایت سخت اور نقصان رساں تھا، لیکن اس کا نتیجہ لشکر شام کے لیے اچھا نکلا، حبیب بن مسلمہ کی رکابی فوج کو عبداللہ بن بدیل دباتے اور پیچھے ہٹاتے ہوئے اس مقام تک لے گئے جہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر موت کے لیے بیعت کی گئی تھی، اپنے میمنہ کی اس نازک حالت کو دیکھ کر سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے گرد تھے حملہ کا حکم دیا، ان لوگوں کا حملہ ایسا زبردست تھا کہ عبداللہ بن بدیل صرف ڈھائی سو آدمیوں کے ساتھ رہ گئے، باقی تمام عراقی پسپا اور فرار ہو کر اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، اپنے میمنہ کی ایسی ابتر حالت دیکھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف کو اہل مدینہ کا افسر بنا کر عبداللہ بن بدیل کی حفاظت و اعانت کے لیے روانہ کیا، لیکن شامیوں سہیل بن حنیف کو عبداللہ بن بدیل تک نہ پہنچنے دیا، اور تھوڑی دیر کے بعد عبداللہ بن بدیل شامی لشکر کے ہاتھ سے مع اپنے ہمرائیوں کے کام آئے۔ ادھر میمنہ کی یہ شکست سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوتے تھے کہ ادھر ان کے میسرہ کو بھی شامیوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی، میسرہ میں صرف ایک قبیلہ ربیعہ پامردی و استقلال کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہا، باقی دستے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے، اپنے میسرہ کو فرار ہوتے ہوئے دیکھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تینوں بیٹوں حسن ، حسین رضی اللہ عنہما اور محمد کو اس طرف روانہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کے بھی کہیں پاؤں نہ اکھڑ جائیں اور اشتر کو حکم دیا کہ میمنہ کے فراریوں سے جا کر یہ کہو کہ تم اس موت سے کہاں بھاگے جاتے ہو جس کو تم حیات کے ذریعہ مجبور نہ کر سکو گے، اشتر نے گھوڑا دوڑا کر میمنہ کے بھاگے ہوئے لوگوں کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ پیغام سنایا اور بلند آواز سے غیرت دلانے والے فقرے کہہ کر ان کو روکا اور اپنے ہمراہ لے کر لشکر شام کے مقابلہ پر مستعد کیا، ادھر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ میسرہ کی حالت سنبھالنے کے لیے خود متوجہ ہوئے، قبیلہ ربیعہ نے جب دیکھا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خود ہم میں شامل ہو کر تلوار چلا رہے ہیں تو ان کی ہمتوں میں اور بھی اضافہ ہوا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بذات خود لڑتا ہوا دیکھ کر ابوسفیان کا غلام احمر ان کی طرف جھپٹا، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام کیسان نامی نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا، دونوں میں تلوار چلنے لگی، بالآخر احمدان کے ہاتھ سے کیسان مقتول ہوا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خادم کو مقتول دیکھ کر احمدان پر حملہ کیا اور جوش غضب میں اس کو اٹھا کر اس زور سے زمین پر دے مارا کہ اس کے دونوں ہاتھ بے کار ہو گئے، لشکر شام