کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 566
علی نے جواب دیا کہ میں نہ عثمان کو مظلوم کہتا ہوں نہ ظالم۔ یہ سن کر تینوں سفیر یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ جو شخص عثمان کو مظلوم نہیں کہتا ہم اس سے بیزار ہیں اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا نہ کرنا مساوی ہے ان پر کوئی اثر نہ ہو گا۔ اس کے بعد مصالحت کی کوئی کوشش جو قابل تذکرہ ہو عمل میں نہیں آئی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نہ عثمان کو مظلوم کہتا ہوں نہ ظالم، یہ سن کر تینوں شخص یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے، کہ جو شخص عثمان رضی اللہ عنہ کو مظلوم نہیں کہتا ہم اس سے بیزار ہیں ، ان لوگوں کو نصیحت کرنا نہ کرنا مساوی ہے ان پر کوئی اثر نہ ہو گا اس کے بعد پھر مصالحت کی کوئی کوشش جو قابل تذکرہ ہو عمل میں نہیں آئی۔ جنگ صفین کا ایک ہفتہ : ماہ محرم ۳۷ھ کی آخری تاریخ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو حکم عام دے دیا کہ کل یکم ماہ صفر سے فیصلہ کن جنگ شروع ہو گی ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا کہ حریف جب تمہارے سامنے سے پسپا ہو تو بھاگنے والوں کا نہ تو تعاقب کیا جائے، نہ ان کو قتل کیا جائے، زخمیوں کا مال نہ چھینا جائے، کسی لاش کو مثلہ نہ کیا جائے، عورتیں اگرچہ گالیاں بھی دیں ان پر کوئی زیادتی نہ کی جائے، اسی قسم کے احکام امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے لشکر میں جاری کر دیئے، یکم صفر کی صبح سے لڑائی شروع ہوئی اس روز اہل کوفہ نے اشتر کی سرداری میں اور اہل شام نے حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا، صبح سے شام تک برابر ہنگامۂ کارزار گرم رہا، مگر کوئی فیصلہ شکست و فتح کی شکل میں نمودار نہ ہو سکا۔ دوسرے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہاشم بن عتبہ سوار و پیادہ لشکر لے کر نکلے اور اہل شام کی طرف سے ابو الاعور سلمی نے مقابلہ کیا، اس روز بھی شام تک بڑی خون ریز لڑائی جاری رہی اور کوئی فیصلہ نہ ہوا، تیسرے روز سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ لشکروں کو لے کر مقابل ہوئے، یہ لڑائی سابقہ دو دن کی لڑائیوں سے بھی زیادہ سخت و شدید تھی، سیّدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے شام کے قریب آخر میں ایسا سخت حملہ کیا کہ سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو کسی قدر پسپا ہو جانا پڑا تاہم آج بھی کوئی فیصلہ نہ ہوا، چوتھے روز سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ لشکر لے کر نکلے، اس روز بھی خوب زور شور سے لڑائی ہوئی، جب شام ہونے کو آئی، تو عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے محمد بن الحنفیہ کو صف لشکر سے جدا ہو کر مبارزہ کی لڑائی کے لیے للکارا، محمد بن الحنفیہ، جوش شجاعت میں مقابلہ کے لیے نکلے، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے گھوڑا دوڑا کر اور قریب جا کر محمد بن