کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 564
بھی کلی بچ جانے کے قابل ہو جاتے اگر ان کے ساتھی اور لشکری خود صحیح راستے کو اختیار کر کے انہیں مجبور کر دیتے اور اس کے لیے یہ محرم یعنی تعطیل کا زمانہ بہترین موقع تھا، لیکن سبائی جماعت اپنی شرارت پاشی کے کام میں خوب مستعد تھی اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئی کہ مسلمان مصالحت کی طرف نتیجہ خیز طور پر متوجہ نہ ہو سکے۔ ایام تعطیل میں صلح کی دوسری کوشش : لڑائی کو بند کرنے کے بعد ۳۷ ھ کی کسی تاریخ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک سفارت سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کی، تاکہ پھر صلح و مصالحت کی سلسلہ جنبائی کریں ، اس سفارت میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ، زید بن قیس ، زیاد ابن حفصہ، شبث بن ربعی شامل تھے، شبث بن ربعی پہلی مرتبہ بھی گئے اور ان ہی سے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سخت کلامی تک نوبت پہنچ گئی تھی، اس مرتبہ پھر شبث کا سفارت میں شامل ہونا خطرے سے خالی نہ تھا، اس وفد نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا فرض ادا کیا۔ اول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے حمدو ثنا کے بعد کہا کہ اے معاویہ سیّدنا علی کی اطاعت اختیار کر لو تمہارے بیعت کر لینے سے مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہو جائے گا، تمہارے اور تمہارے دوستوں کے سوا اور کوئی بیعت سے منحرف نہیں ہے، اگر تم نے مخالفت پر اصرار کیا تو ممکن ہے کہ وہی صورت پیش آئے جو اصحاب جمل کو پیش آئی، معاویہ رضی اللہ عنہ نے قطع کلام کر کے کہا کہ اے عدی تم صلح کرانے آئے ہو یا لڑنے، کیا تم مجھ کو اصحاب جمل کا واقعہ یاد دلا کر لڑائی سے ڈرانا چاہتے ہو، تم نہیں جانتے کہ میں حرب کا پوتا ہوں ، مجھے لڑائی کا مطلق خوف نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ تم بھی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے ہو، اللہ تعالی تم کو بھی قتل کرائے گا۔ اس کے بعد یزید بن قیس بولے کہ ہم لوگ سفیر ہو کر آئے ہیں ، ہمارا یہ منصب نہیں کہ تم کو نصیحت کریں ، لیکن ہم کو اس بات کی ضرور کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہو اور نا اتفاقی دور ہو، یہ کہہ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور ان کا مستحق خلافت ہونا بیان کیا، اس کے جواب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ہم کو جماعت کی طرف کیا بلاتے ہو جماعت ہمارے ساتھ بھی ہے، ہم تمہارے دوست کو مستحق خلافت نہیں سمجھتے کیونکہ انہوں نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا اور اس کے قاتلین کو پناہ دی، صلح تو اس وقت ہو سکتی ہے جب کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ہمارے سپرد کر دیں ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یہیں تک کہنے پائے تھے کہ شبث بن ربعی فوراً بول اٹھے کہ اے معاویہ کیا تو عمار