کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 563
بالکل تعطیل کر دی، اس ایک مہینے میں دونوں طرف کی فوجیں بالکل خاموش رہیں ، مصالحت کی گفتگو اور سلسلہ جنبانی پھر جاری ہو گئی۔ اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محرم کے اس ایک مہینے میں مسلمانوں کی دونوں فوجوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ بلاز دو خورد خیمہ زن ہونا ضرور یہ نتیجے پیدا کر دیتا اور یہ خیال خود بخود طاقت پیدا کر لیتا کہ جنگ سے صلح بہرحال بہتر ہے اور مسلمانوں کو ہرگز آپس میں نہیں لڑنا چاہیے، جب تمام لشکری لوگوں میں یہ کرہ ہوائی پیدا ہو جاتا، تو سرداران لشکر کو بھی مجبوراً صلح پر رضا مند ہونا پڑتا، لیکن اس سکون اور خاموشی کے ایام میں سبائی جماعت جو شریک لشکر تھی اور جس کا کوئی جداگانہ وجود نہ تھا بڑی سرگرمی سے مصروف کار رہی، اس نے اپنی انتہائی کوشش اس کام میں صرف کر دی کہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت و رعایت مطلق پیدا نہ ہو سکے اور نفرت و عداوت ترقی کرے، سردارن لشکر کی حالت یہ تھی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کسی طرح خلافت سے دست بردار نہیں ہو سکتے، وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائی لوگوں کو بھی سزا نہ دے سکتے تھے، کیونکہ مالک اشتر جیسے زبردست سپہ سالار، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جیسے گورنر اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جیسے محترم صحابی کو سزا دینا اور تمام کوفی و مصری لشکر کو باغی اور دشمن بنا لینا کوئی آسان کام نہ تھا، نیز یہ کہ قاتلین اور سازش قتل کے شرکاء کا تعین شہادتوں کے ذریعہ امرمشتبہ کی حد سے آگے بڑھ کر یقین کے درجہ تک نہیں پہنچتا تھا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں وہ یقینا ہر طرح مستحق خلافت تھے۔ ادھر سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو مکہ کے رئیس اور احد و احزاب کی عظیم الشان فوجوں کے سپہ سالار اعظم، ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونے کے علاوہ ابتدائے خلافت راشدہ سے اب تک رومیوں کے خلاف کارہائے نمایاں انجام دینے والے کمانڈر ملک شام کا نہایت عمدہ انتظام کرنے والے منظم ہونے کی حیثیت سے امیر عرب سمجھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کے بھائی اور کاتب وحی ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہم جد اور وارث ہونے کی حیثیت سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص طلب کرنے میں وہ اپنے آپ کو سراسر حق و راستی پر یقین کیے ہوئے تھے، اتنے بڑے قتل کو مشتبہ قرار دے کر ٹال دینا اور کسی کو بھی زیر قصاص نہ لانا ان کے نزدیک جیتی مکھی نگلنا تھا، اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی توجیہہ نہ ان کی سمجھ میں آتی تھی اور وہ نہ سمجھنا چاہتے تھے، سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے خروج اور مدینہ کے کئی اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیعت علی سے پرہیز کرنے اور عمروبن العاص وغیرہ حضرات کے تائید کرنے سے ان کے ارادے اور یقین میں اور بھی زیادہ قوت پیدا ہو گئی تھی۔ طرفین اپنی اپنی باتوں اور ارادوں پر صحیح نظر ڈالے اور اپنی خواہشوں اور امیدوں کے فریب سے