کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 561
بازی بھی ہوئی، نیزے بھی چلے، تلواریں بھی چمکیں ، خون بھی بہا اور سر بھی جسم سے جدا ہوئے، لیکن یہ فیصلہ ابھی نہ ہونے پایا تھا کہ پانی پر کون فریق قابض و متصرف رہ سکے گا، اتنے میں سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ اگر تم نے پانی کے اوپر سے اپنا قبضہ نہ اٹھایا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو پانی کی تکلیف پہنچی اور وہ پیاس کے مارے تڑپنے لگے تو خود تمہارے لشکر کے بہت سے آدمیوں کا جذبہ رحم متحرک ہوگا اور وہ تمہارا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جا ملیں گے اور تم کو قساوت قلبی اور ظلم سے متہم کر کے سیّدنا علی کی طرف سے لڑیں گے، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اعلان کرا دیا کہ فریق مخالف کو پانی سے نہ روکا جائے اور پانی کی تکلیف نہ دی جائے، اسی طرح یہ ہنگامہ بھی مشتعل ہو کر جلد فرو ہو گیا۔[1] اس کے بعد دو دن تک دونوں لشکر بلا جدال و قتال خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل پڑے رہے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس حجاز و یمن اور عرب کے مختلف حصوں ، نیز ہمدان وغیرہ ایرانی صوبوں سے بھی جمعیتیں آ گئی تھیں اور کل تعداد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نوے ہزار تھی۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کل تعداد اسی ہزار آدمیوں کی تھی [2] ان دونوں لشکروں کے سپہ سالار اعظم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے، فوج کے بڑے بڑے حصوں کی سرداریاں اس طرح تقسیم ہوئی تھیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سواران کوفہ پراشتر، سواران بصرہ پر سہل بن حنیف، کوفہ کی پیادہ فوج پر سیّدنا عمار بن یاسر بصرہ کی پیادہ فوج پر قیس بن سعد بن عبادہ افسر تھے، اور ہاشم بن عتبہ کو لشکر کا علم دیا گیا تھا، باقی قبائل اور صوبوں کی جماعت کے اپنے اپنے الگ الگ افسر اور علم تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں میمنہ کی سرداری ذوالکلاح حمیری کو، میسرہ کی حبیب بن مسلمہ کو، مقدمہ کی ابوالاعور سلمی کو سپرد ہوئی تھی، سواران دمشق پر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ، پیادہ فوج پر مسلم بن عقبہ سردار مقرر کیے گئے تھے، ان کے علاوہ اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر عبدالرحمن بن خالد، عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، بشیر بن مالک کندی، وغیرہ افسر مقرر ہوئے تھے۔ دونوں کی خاموشی کے بعد تیسرے دن یکم ذی الحجہ ۳۶ ھ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بشیر بن عمروبن محصن انصاری رضی اللہ عنہ ، سعید بن قیس اور شبث بن ربعی تمیمی کا ایک وفد سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، کہ ان کو
[1] پانی پر جھگڑے کی یہ روایت قابل اعتماد نظر نہیں آتی، دریائے فرات کوئی تالاب نہیں تھا کہ اس پر ایک فریق قابض ہو جاتا تو دوسرے کے لیے گنجائش نہ ہی رہتی، یہ ہزارہا میل لمبا ہے، اورہر فریق اپنی جانب سے بلا توقف پانی لے سکتا تھا۔ [2] فریقن کی اسی تعداد پر مورخین کا اتفاق نہیں ہے، بعض نے یہی اور بعض نے اس سے مختلف تعداد لکھی ہے۔