کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 56
ایک سطح مرتفع ہے جس میں بڑے بڑے ریگستان بھی واقع ہیں اور نجد کے ریگستانوں کا سلسلہ ملک شام کے وسیع ریگستانوں سے جا ملا ہے۔ ملک عرب میں جا بجا پہاڑوں کے سلسلے بھی واقع ہیں ، لیکن کوئی پہاڑ سر سبزو شاداب نہیں ، بحرقلزم کے ساحلی صوبے یعنی یمن اور حجاز وغیرہ باقی تمام صوبوں پرشادابی و سرسبزی میں فوقیت رکھتے ہیں ، کل ملک عرب کی آبادی سوا کروڑ کے قریب بیان کی جاتی ہے۔[1] گویا فی مربع میل دس آدمی آباد ہیں ۔ دھوپ سخت شدت سے پڑتی ہے، لو ایسی تندوتیز چلتی ہے کہ اس کا نام بھی سموم یا زہریلی ہوا رکھا گیا ہے، انسان کی تو حقیقت کیا ہے اونٹ جیسا ریگستانی جانور بھی سموم کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور باد سموم کے جھونکوں سے مر کر رہ جاتا ہے، اونٹ اس ملک میں بڑا کار آمد جانور ہے، سیکڑوں کوس مسافر کو پانی کا نام و نشان تک نہیں ملتا، اونٹ ریگستانی جہاز ہے اسی پر بڑے بڑے سفر طے کیے جاتے ہیں ، کھجور کے سوا کوئی قابل تذکرہ پیداوار نہیں ، اس ملک کے باشندے اونٹ کے دودھ اور کھجور کے پھل پر اپنی گزران کر لیتے ہیں ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خانہ بدوشی کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے، اسی لیے بڑے بڑے شہر بہت کم ہیں ۔[2] حالی مرحوم نے عرب کا نقشہ اس طرح تیار کیا ہے: عرب کچھ نہ تھا اک جزیرہ نما تھا! کہ پیوند ملکوں سے جس کا جدا تھا نہ وہ غیر قوموں پہ چڑھ کر گیا تھا نہ اس پرکوئی غیر فرماں روا تھا تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایہ ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور کہ قابل ہی خود جس سے پیدا ہوں جوہر
[1] موجودہ اعداد و شمار کے مطابق عرب ممالک کی آبادی تقریباً بیس کروڑ ہے۔ [2] عرب دنیا کو اللہ تعالیٰ نے جب سے تیل (پٹرولیم) کی دولت سے نوازا ہے، وہاں زبردست ترقی ہوئی ہے۔ بڑے بڑے اور جدید شہر آباد ہوئے ہیں جہاں بے شمار تیس تیس، چالیس چالیس منزلہ عمارات تعمیر ہوئی ہیں اور بڑی تیزی سے مزید تعمیر ہو رہی ہے۔ صنعتوں کے جال بچھ گئے ہیں ۔ دولت کی خوب ریل پیل ہے۔ بعض عرب ممالک خوب ترقی کر گئے ہیں اور بعض ابھی ترقی کر رہے ہیں ۔