کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 557
انہوں نے اس نئے عامل سے یہ جواب سن کر فوراً اپنی حفاظت کا معقول انتظام کر لیا، اور مدافعت پر آمادہ ہو بیٹھے، محمد بن ابی بکر ان لوگوں کے ساتھ صفین کے ختم ہونے کے بعد تک الجھے رہے اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مصر کی جانب سے بالکل بے فکر ہو کر جنگ صفین کی تیاریوں میں مصروف ہوئے۔ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس: سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے خلافت فاروقی میں مصر کو فتح کر کے ممالک اسلامیہ میں شامل کیا تھا، جب بلوائیوں نے مدینہ میں داخل ہو کر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا تھا تو یہ مدینہ میں موجود تھے، بلوائیوں کے نا مناسب طرز عمل اور اس فساد کے نتیجے پر غور کر کے انہوں نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ مدینہ سے نکل جائیں ، چنانچہ وہ اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو ہمراہ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور بیت المقدس میں جا کر مقیم ہو گئے، وہاں نہایت خاموشی کے ساتھ حالات پر غور کرتے اور واقعات کی خبریں سنتے رہے، اوّل سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سنا، پھر خبر پہنچی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی ہے مگر انہوں نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے میں تامل فرمایا ہے، پھر سنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہمراہ لے کر طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر بصرہ کی جانب روانہ ہوئے ہیں ، اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کر کے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کیا ہے، پھر سنا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بھی بصرہ کی جانب روانہ ہو گئے، اس کے بعد سنا کہ جنگ جمل میں سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ دونوں شہید ہو گئے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ پر قابض و متصرف ہو کر اور وہاں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو عامل مقرر کر کے کوفہ میں تشریف لے آئے اور ملک شام پر حملہ کی تیاری فرما رہے ہیں ، نیز امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مقابلہ پر آمادہ و مستعد ہو رہے ہیں ۔ یہ سن کر سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں بیٹوں سے مشورہ لیا اور کہا کہ اب موقع آ گیا ہے کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلا جاؤں اور وہاں اس مسئلہ خلافت میں دخیل ہو کر اس کوطے کرا دوں ، جنگ جمل سے پہلے مدعیان خلافت چار شخص تھے، اوّل سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کہ وہ خلیفہ منتخب ہو ہی گئے تھے اور لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی، دوم سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہ بصرہ والے ان کے حامی و مددگار تھے اور سوم سیّدنا زبیر اور کوفہ میں ان سے عقیدت رکھنے اور ان کو مستحق خلافت سمجھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، چہارم سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یہ ملک شام کے گورنر تھے اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز اور عرصہ دراز سے شام کی حکومت پر مامور تھے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار اور وارث ہونے کی وجہ سے ان کے خون کا دعویٰ کرتے اور قصاص چاہتے تھے۔