کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 556
تعریفیں بیان کرنی شروع کر دیں اور لوگوں سے کہنے لگے کہ قیس ہمارے طرفدار ہیں ، ان کے خطوط بھی ہمارے پاس آتے رہتے ہیں ، وہ ضروری باتوں کی ہم کو اطلاع بھی دیتے ہیں ، کبھی لوگوں کے مجمع میں ذکر کرتے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے مصر میں خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ بڑے بڑے احسانات کیے ہیں اور ان کو بڑی عزت کے ساتھ رکھتے ہیں ۔ دمشق سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا حال سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے جاسوسوں نے بلاتوقف لکھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت سے فوراً معزول کر کے ان کی جگہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مصر میں پہنچ کر اپنی امارت اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان دکھایا، تو قیس بہت ملول و افسردہ ہوئے اور مصر سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔ مدینہ منورہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے وہاں سے تشریف لے آنے کے بعد کسی کی حکومت نہ تھی، وہاں بعض ایسے اشخاص بھی موجود تھے جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے اور ان کے ہر ایک حکم اور ہر ایک فعل کو واجب التعمیل و واجب الاقتدار یقین کرتے تھے اور ایسے لوگ بھی بکثرت موجود تھے جو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لیے جانے کے سبب سخت بے چین اور اس معاملہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھیل اور درگزر کو سخت قابل اعتراض سمجھتے اور ان کو نشانہ ملامت بنانے سے ذرا نہ چوکتے تھے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو ان کے تعاقب ہی میں سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن الحکم کو روانہ کیا کہ جس طرح ممکن ہو، قیس بن سعد کو ترغیب دے کر لے آؤ، مروان بن الحکم نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو اوّل سمجھایا، جب وہ نہ مانے تو تنگ کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ دق ہو کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور کوفہ میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے، وہاں تمام حالات زبانی سنائے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مطمئن ہو کر ان کو اپنی مصاحبت میں رکھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سن کر مروان کو لکھا کہ اگر تو ایک لاکھ جنگ جنگ جو لشکر سے علی رضی اللہ عنہ کی مدد کرتا تو وہ آسان تھا، بمقابلہ اس کے قیس علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مصر پہنچ کر ان لوگوں کو جو سکوت کی حالت میں تھے اعلان دے دیا کہ یا تو تم لوگ ہماری اطاعت قبول کرو اور امیر المومنین سیّدنا علی کی بیعت میں داخل ہو جاؤ، ورنہ ہمارے ملک سے نکل جاؤ، انہوں نے کہا ہمارے ساتھ جنگ کرنے اور سختی برتنے میں جلدی نہ فرمائیے، زیادہ نہیں تو چند روز کی مہلت دیجئے، تاکہ ہم اپنے مآل کار پر غور کر لیں ۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کو قطعاً مہلت نہیں دی جا سکتی۔