کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 555
اعتراضات کرتے اور ان کے طرز عمل پر نکتہ چینی کرنے میں خوب سرگرم و مستعد پائے جاتے تھے، لہٰذا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کسی صوبہ سے پوری پوری فوجی امداد حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی، اگرچہ وہ صرف ملک شام پر تصرف رکھتے تھے، لیکن سارا کا سارا ملک ان کا ہم خیال وہم عنان تھا اور تمام ملک میں ان کو پوری پوری قبولیت حاصل تھی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کو معرکہ آرائی کرنی پڑے گی اس کا اندازہ ان کو پہلے ہی سے ہو چکا تھا، لہٰذا سب سے بڑی تدبیر جو انہوں نے پیشتر سے کی یہ تھی، کہ مصر کی جانب سے حملہ آوری کے امکان کو دور کر دیا، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی قوت و قابلیت سے بہت مرعوب تھے، ان کی خوش قسمتی سے ایک ایسی وجہ پیدا ہو گئی کہ وہ اپنے ارادے اور خواہش میں پورے کامیاب ہو گئے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہو گئے ہیں لہٰذا آپ کو مطالبہ قصاص میں میری مدد کرنی چاہیے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے جواباً لکھا کہ مجھ کو جہاں تک معلوم ہے سیّدنا علی قتل عثمانی رضی اللہ عنہما کی سازش میں ہرگز شریک نہ تھے، ان کے ہاتھ پر جب کہ لوگوں نے بیعت کر لی اور وہ خلیفہ مقرر ہو گئے تو پھر تم کو ان کا مقابلہ اور مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
اسی دوران میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بمقام کوفہ پہنچا اس کے اندر لکھا تھا کہ مصر کے اندر ابھی بہت سے لوگ خاموش ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کسی قسم کی سختی کو مناسب نہیں سمجھا گیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیّدنا عبداللہ بن جعفر نے رضی اللہ عنہ یہ مشورہ دیا کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا جائے کہ وہ سکوت اختیار کرنے والوں سے لڑیں اور ان کو بیعت کرنے کے لیے مجبور کریں ، اس طرح آزاد اور خاموش نہ رہنے دیں ، چنانچہ یہ حکم قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل کو غیر ضروری اور مضر خیال کر کے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جو لوگ فی الحال خاموش ہیں وہ آپ کے لیے نقصان رساں نہیں ہیں لیکن اگر ان کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا گیا تو وہ سب کے سب آپ کے دشمنوں سے جا ملیں گے اور بے حد نقصان رساں ثابت ہوں گے، مناسب یہ ہے کہ ان کو اسی حال پر رہنے دیا جائے
اس خط کے پہنچنے پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشیروں نے ان کو یقین دلایا کہ قیس بن سعد ضرور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ساز باز رکھتے ہیں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس بات کے ماننے میں متامل تھے، اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کے لیے ضروری سمجھتے تھے، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ قیس کی نسبت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے دربار میں شبہ کیا جا رہا ہے، تو انہوں نے علانیہ اپنے دربار میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی