کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 554
کریں گے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے اخلاق اور اپنی قابلیت سے مصر میں پورے طور پر قوت حاصل کر لی اور ان کے اخلاق نے خوب ترقی حاصل کی۔ جب جنگ جمل ختم ہو گئی اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف تشریف فرما ہوئے تو سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فکر ہوئی، کہ اب ہمارے اوپر حملہ آوری ہو گی، ساتھ ہی ان کو اس بات کا بھی خیال تھا کہ مصر میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو بخوبی قوت و قبولیت حاصل ہے اور وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے اور ان ہی کے ہمدرد و خیر خواہ ہیں ، پس سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفہ کی طرف سے حملہ آور ہوں گے، تو وہ ضرور قیس بن سعد کو حکم دیں گے، کہ تم دوسری طرف مصر سے فوج لے کر حملہ کرو، جب دو طرف سے ملک شام پر حملہ ہو گا تو بڑی مشکل پیش آئے گی۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قدرتاً اپنے آپ کو طاقتور بنانے کی مہلت بخوبی مل گئی تھی، دوسرے انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خون آلود پیراہن اور ان کی بیوی کی کٹی ہوئی انگلیاں ان کے پاس پہنچ گئی تھیں اور وہ روزانہ اس خون آلود پیرہن اور ان کی انگلیوں کو جامع دمشق میں منبر پر رکھتے تھے اور لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر آہ و زاری کرتے تھے، شام کا صوبہ چونکہ ہر وقت قیصر روم کے حملوں کا مقام بن سکتا تھا، لہٰذا ملک شام میں پہلے ہی سے زبردست فوج ہمہ وقت موجود رہتی تھی، ان تمام لوگوں نے قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ نہ لے لیں گے، اس وقت تک فرش پر نہ سوئیں گے اور ٹھنڈا پانی نہ پئیں گے۔ ملک عرب کے نامور اور بہادر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور ان کی خاطر و مدارات بجا لانے میں بھی سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کمی نہ کرتے تھے، کام کے آدمی کو اپنے ساتھ ملانے اور اس کی دل جوئی کرنے میں ان سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہوتا تھا، اپنے دعوے اور مطالبے کی معقولیت ثابت کرنے اور اپنے آپ کو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا وارث بتا کر مظلوم ظاہر کرنے سے بھی وہ غافل نہ تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کو ایک سال کی مہلت مل چکی تھی، جس میں سوائے ان تیاریوں کے ان کو اور کوئی کام نہ تھا، لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس عرصہ میں برابر مصروفیت در پیش رہی، اگرچہ کوفہ میں تشریف لانے کے بعد بظاہر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے دائرہ حکومت میں سوائے ایک صوبہ شام کے تمام ممالک اسلامیہ شامل تھے، لیکن ان کو ان اسلامی ممالک میں وہ اثر اور وہ اقتدار حاصل نہ ہوا جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خلیفہ اسلام کو حاصل تھا، حجاز، یمن، عراق، مصر، ایران وغیرہ ہر جگہ ان کے فرماں برداروں کے ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی برابر پائے جاتے تھے جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر علانیہ