کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 550
سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رؤساء بصرہ کی چالیس عورتوں اور محمد بن ابی بکر کے ہمراہ بصرہ سے روانہ کیا، کئی کوس تک دو بطریق مشایعت ہمراہ آئے اور دوسری منزل تک سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پہنچانے آئے، سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا اوّل مکہ معظمہ گئیں اور ماہ ذی الحجہ تک مکہ میں رہیں ، وہاں حج ادا کر کے محرم ۳۷ ھ میں مدینہ منورہ تشریف لے گئیں ۔ جنگ جمل میں بہت سے بنو امیہ بھی شریک تھے اور اہل جمل کی طرف سے لڑے تھے، لڑائی کے بعد مروان بن الحکم، عتبہ بن ابی سفیان ، عبدالرحمن و یحییٰ برادران مروان وغیرہ تمام بنو امیہ بصرہ سے شام کی طرف چل دیئے اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق میں پہنچے، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جو معرکہ جمل میں زخمی ہو گئے تھے، بصرہ میں ایک شخص ازدی کے یہاں پناہ گزیں ہوئے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیج کر انہیں بلوایا اور اپنے ہمراہ مکہ کو لے کر روانہ ہوئیں ۔ فرقہ سبائیہ کی ایک اور شرارت: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بصرہ سے روانہ کرنے کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے بیت المال کو کھولا اور اس میں جس قدر زر نقد تھا وہ سب ان لشکریوں میں تقسیم کر دیا، جو معرکہ جمل میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے زیر علم لڑ رہے تھے، ہر شخص کے حصہ میں پانچ پانچ سو درہم آئے، یہ روپیہ تقسیم کر کے آپ نے فرمایا کہ اگر تم ملک شام پر حملہ آور ہو کر فتح یاب ہو جاؤ، تو تمہارے مقرر وظائف کے علاوہ اتناہی روپیہ اور دیا جائے گا۔ عبداللہ بن سبا کا گروہ جس کو فرقہ سبائیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جنگ جمل کے ختم ہوتے ہی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علانیہ بد زبانیاں شروع کر چکا تھا اور اس بد زبانی اور طعن و تشنیع کے لیے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس حکم کو وجہ قرار دی تھی کہ آپ نے مال و اسباب کے لوٹنے سے منع کر دیا تھا، اب تک تو اس حکم کے خلاف یہ فرقہ شکایات کرتا اور لوگوں کو بھڑکاتا تھا، اب جب کہ ہر ایک لشکر کو پانچ پانچ سو درم ملے تو اس پر بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مخالفت یہاں تک سختی و شدت کے ساتھ شروع کی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان کی طرف سے چشم پوشی کرنا دشوار ہو گیا، سیّدنا علی نے جس قدر اس گروہ کو نصیحت و فہمائش کی اسی قدر اس نے شوخ چشمی میں ترقی کی اور نوبت یہاں تک پہنچی، کہ یہ لوگ ایک روز سب کے سب بصرہ سے نکل کر چل دیئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ملک میں جا کر فساد برپا نہ کریں ، ان کے تعاقب کے لیے آپ بصرہ سے لشکر لے کر نکلے، لیکن وہ ہاتھ نہ آئے اور غائب ہو کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ اس جگہ یاد چاہیے کہ عبداللہ بن سبا نے اپنے آپ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا فدائی اور طرف دار ظاہر کیا تھا