کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 549
سیدنا علی خود تشریف لائے اور قریب پہنچ کر سلام علیک کے بعد کہا، اماں جان آپ کا مزاج بخیر ہے؟ سیّدنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، خداتعالیٰ آپ کی ہر ایک غلطی کو معاف کرے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ تمہاری بھی ہر ایک غلطی کو معاف کرے، اس کے بعد سردار ان لشکر یکے بعد دیگرے سیدہ ام المومنین کے سلام کو حاضر ہوئے، سیّدنا قعقاع رضی اللہ عنہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کاش میں آج کے واقعہ سے بیس برس پہلے مر جاتی، سیّدنا قعقاع رضی اللہ عنہ نے جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس قول کو روایت کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا، کہ ’’کاش میں آج سے بیس برس پہلے مر جاتا۔ اس جنگ کا نام جنگ جمل اس لیے مشہور ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جس جمل پر سوار تھیں وہی جمل لڑائی کا مرکز بن گیا تھا، اس لڑائی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد ۳۰ ہزار تھی، جس میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج کی تعداد میدان جنگ میں بیس ہزار تھی، جس میں سے ایک ہزار ستر آدمی کام آئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام مقتولین کے جنازہ کی نماز پڑھی سب کو دفن کرایا، لشکر گاہ اور میدان جنگ میں جو مال و اسباب تھا اس کے متعلق منادی کرا دی کہ جو شخص اپنے مال و اسباب کی شناخت کرے وہ لے جائے، جب شام ہو گئی، تو سیدہ ام المومنین کو محمد بن ابی بکر ان کے بھائی نے بصرہ میں لے جا کر عبداللہ بن خلف خزاعی رضی اللہ عنہ کے مکان میں صفیہ بن الحارث بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس ٹھہرایا۔ اگلے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ میں داخل ہوئے، تمام اہل بصرہ نے آپ کی بیعت کی، اس کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، چونکہ عبداللہ بن خلف اس معرکہ میں کام آ گئے تھے، لہٰذا عبداللہ بن خلف کی والدہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بہت کچھ سخت سست کہا مگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا، بعض ہمرائیوں نے کچھ گراں محسوس کیا تو آپ نے فرمایا، کہ عورتیں چونکہ ضعیف ہوتی ہیں ، اس لیے ہم تو مشرکہ عورتوں سے بھی درگزر ہی کیا کرتے ہیں اور یہ تو مسلمان عورتیں ہیں ان کی ہر ایک بات کو برداشت کرنا چاہیے۔ سیدہ ام المومنین سے سیّدنا علی نے بڑی تعظیم و تکریم کا برتاؤ کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے، پھر تمام معاملات میں ہر طرح صلح و صفائی ہو گئی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی معذرت کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی معذرت کا اظہار فرمایا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس کو سیّدنا علی نے بصرہ کا حاکم اور گورنر مقرر فرما کر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سامان سفر کی تیاری کریں ، چنانچہ یکم ماہ رجب ۳۶ ھ کو ہر قسم کا سامان سفر درست کر کے سیّدنا علی نے