کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 548
تیروں کی بارش کی اور وہ شہید ہو گئے اس کے بعد اہل بصرہ میں اور بھی جوش پیدا ہوا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے اردگرد لاشوں کے انبار لگ گئے، اہل بصرہ برابر قتل ہو رہے تھے، لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ تک حریف کو نہیں پہنچنے دیتے تھے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کیفیت کو دیکھ کر فوراً سمجھ لیا کہ جب تک یہ ناقہ میدان جنگ میں نظر آتا رہے گا لڑائی کے شعلے کبھی فرونہ ہوں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ لڑائی اور کشت و خوں کا مرکز بنا ہوا تھا چاروں طرف سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کجادہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی[1] اور وہ قاتلین عثمان پر بد دعا کررہی تھیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ اس ناقہ کو کسی طرح مارو، جس وقت ناقہ گرا فوراً لڑائی ختم ہو جائے گی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اشتر جو بلوائیوں کا سرگروہ تھا، اس وقت میدان جنگ میں بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا، اسی طرح اور بھی بلوائی سردار اور سبائی لوگ خدمت انجام دے رہے تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیہم کئی زبردست حملے ہوئے، مگر اہل جمل نے ہر ایک حملے کو بڑی ہمت و شجاعت کے ساتھ روکا، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور مروان بن الحکم ان حملوں کو روکنے میں زخمی ہوئے، عبدالرحمن بن عتاب ، جندب بن زہیر، عبداللہ بن حکیم وغیرہ حضرات جمل کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے، سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ۷۲ زخم آئے تھے۔ ناقہ کی مہار یکے بعد دیگرے لوگ پکڑتے جاتے اور شہید ہوتے جاتے تھے، یہاں تک کہ سیکڑوں آدمی ناقہ کی مہار پر شہید ہو گئے، بالآخر اہل جمل نے ایسا سخت حملہ کیا کہ ناقہ کے سامنے دور تک میدان صاف کر لیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ کر پھر حملہ کیا اور آگے بڑھایا، کئی مرتبہ ناقہ کے سامنے لڑنے والوں کی صفیں آگے بڑھیں اور پیچھے ہٹیں ، بالآخر ایک شخص نے موقع پا کر ناقہ کے پاؤں میں تلوار ماری اور ناقہ چلا کر سینے کے بل بیٹھ گیا۔ اس وقت سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ ناقہ کے قریپ پہنچ گئے تھے، ناقہ کے گرتے ہی اہل جمل منتشر ہو گئے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر نے حملہ کر کے ناقہ کا محاصرہ کر لیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو جو ان کے ساتھ تھے حکم دیا کہ جا کر اپنی بہن کی حفاظت کرو اور ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے، قعقاع بن عمرو ،محمد بن ابی بکر اور عمار بن یاسر نے کجادہ کی رسیاں کاٹ کر کجاوہ کو اٹھا کر لاشوں کے درمیان سے الگ لے جا کر رکھا اور پردہ کے لیے اس پر چادریں تان دیں ۔
[1] اور تیروں کی بارش اپنے برسانے والوں کے اسلام و ایمان کی حقیقت کا پتہ دے رہی تھی۔