کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 547
تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ہے۔ عمرو بن الجرموز پر ان الفاظ کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ان کے سامنے ہی چند گستاخانہ الفاظ کہہ کر اور تلوار خود ہی اپنے پیٹ میں جھونک کر مر گیا اور اس طرح واصل بہ جہنم ہو گیا۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی علیحدگی: لڑائی کے شروع ہی میں سیّدنا طلحہ اور سیّدنا زبیر میدان جنگ سے جدا ہو گئے تھے، قبائل کے افسر اور چھوٹے چھوٹے سردار اپنی اپنی جمعیتوں کو لیے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے مقابلہ پر ڈٹے ہوئے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود اس کوشش میں مصروف تھیں کہ کسی طرح لڑائی رکے اور صلح کی صورت پیدا ہو، لہٰذا اس طرف یعنی اہل جمل کی طرف فوج کو لڑانے والا کوئی ایک سردار نہ تھا، لڑنے والوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہم لڑائی میں جو کوشش کر رہے ہیں یہ سیدہ ام المومنین کا منشاء اصلی ہے یا نہیں ، سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا اور ان کا تمام لشکر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ خیال رکھتے تھے کہ انہوں نے صلح کی گفتگو کر کے ہم کو دھوکا دینا چاہا اور پھر ظالمانہ طور پر اچانک ہم پر حملہ کر دیا، اس حالت میں وہ اپنے لشکر کو لڑنے اور مدافعت کرنے سے روک بھی نہیں سکتی تھیں ۔ ادھر اہل بصرہ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ جو خبریں ہم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت پہلے سنی تھیں کہ وہ اہل بصرہ کو قتل کر کے ان کے بیوی بچوں کو باندی غلام بنا لیں گے، وہ صحیح تھیں ، غرض دس ہزار سے زیادہ مسلمان دونوں طرف مقتول ہوئے اور آخر تک اصل حقیقت کسی کو معلوم نہ ہوئی کہ یہ لڑائی کس طرح ہوئی، ہر شخص اپنے فریق مقابل ہی کو ظالم اور خطا کار سمجھتا رہا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ چونکہ خود لشکر کی سپہ سالاری فرما رہے تھے، لہٰذا ان کی طرف سے ایسے ایسے سخت حملے ہوئے کہ اہل جمل کو پسپا ہونا پڑا اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جمل سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حملہ آور فوج کی زد میں آ گیا، اس اونٹ کی مہار کعب کے ہاتھ میں تھی، وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مشورہ دے کر میدان جنگ کی طرف لائے تھے کہ شاید کوئی صلح کی صورت پیدا ہوجائے۔ جب سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حملہ آور فوج کسی طرح نہیں رکتی اور اونٹ کو بچانے کے لیے بصرہ والوں نے جو اوّل پسپا ہو گئے تھے از سر نو اپنے قدم جما لیے ہیں اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ تلوار چل رہی ہے، تو انہوں نے کعب کو حکم دیا کہ تم اونٹ کی مہار چھوڑ کر قرآن مجید کو بلند کر کے آگے بڑھو اور لوگوں کو قرآن مجید کے محاکمہ کی طرف بلاؤ اور کہو کہ ہم کو قرآن مجید کا فیصلہ منظور ہے تم بھی قرآن مجید کا فیصلہ مان لو، کعب نے آگے بڑھ کرجوں ہی اعلان کیا عبداللہ بن سبا کے لوگوں نے یک لخت ان پر