کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 546
سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو لیے ہوئے گرا، سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام کو جو اتفاقاً اس طرف سامنے آ گیا تھا بلایا اور اس کے ہاتھ پر یا سیّدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جو وہاں آگئے تھے نیابتاً سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اس تجدید بیعت کے بعد بصرہ میں آ کر انتقال فرمایا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی اور ان کی بہت تعریف فرماتے اور افسوس کرتے رہے۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی صلح پسندی: جب لڑائی شروع ہو گئی، تو سیّدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ جو پہلے ہی سے ارادہ فرما چکے تھے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے نہ لڑیں گے، میدان جنگ سے جدا ہو گئے، اتفاقاً سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ لیا اور بڑھ کر ان کو لڑائی کے لیے ٹوکا، سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے نہ لڑوں گا لیکن سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ ان کو لڑائی کا بانی سمجھ کر سخت ناراض تھے، انہوں نے حملہ کیا سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ ان کے ہر ایک وار کو روکتے اور اپنے آپ کو بچاتے رہے اور خود ان پر کوئی حملہ نہیں کیا، یہاں تک کہ سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ تھک کر رہ گئے اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل کر چل دیئے، اہل بصرہ سے احنف بن قیس اپنے قبیلے کی ایک بڑی جمعیت لیے ہوئے دونوں لشکروں سے الگ بالکل غیر جانب دار حالت میں ایک طرف خیمہ زن تھے، انہوں نے پہلے ہی سے دونوں طرف کے سرداروں کو مطلع کر دیا تھا کہ ہم دونوں میں سے کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کریں گے۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے نکل کر چلے تو احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کی لشکر گاہ کے قریب سے ہو کر گزرے، احنف بن قیس کے لشکر سے ایک شخص عمرو بن الجرموز سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہو لیا اور قریب پہنچ کر ان کے ساتھ ساتھ چلنے اور کوئی مسئلہ ان سے دریافت کرنے لگا، جس سے سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو اس کی نسبت کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہوا، لیکن اس کی طبیعت میں کھوٹ تھا اور وہ ارادہ فاسد سے ان کے ہمراہ ہوا تھا، وادی السباع میں پہنچ کر نماز کا وقت آیا تو سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے، بحالت نماز جب کہ سجدہ میں تھے، عمروبن الجرموز نے ان پر وار کیا، وہاں سے وہ سیدھا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اوّل کسی شخص نے آ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قاتل آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے، آپ نے فرمایا اس کو اجازت دے دو، مگر ساتھ ہی اس کو جہنم کی بھی بشارت دے دو، جب وہ سامنے آیا اور آپ نے اس کے ساتھ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار دیکھی تو آپ کے آنسو نکل پڑے اور کہا کہ اے ظالم یہ وہ تلوار ہے جس نے عرصہ دراز