کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 544
محمد بن طلحہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور صلح کی تمام شرائط تیسرے دن شام کے وقت طے اور مکمل ہو گئیں اور بات یہ قرار پائی کہ کل صبح صلح نامہ لکھا جائے، اور اس پر فریقین کے دستخط ہو جائیں ۔ دونوں لشکروں کو ایک دوسرے کے سامنے پڑے ہوئے تین دن ہو چکے تھے، اس تین دن کے عرصہ میں عبداللہ بن سبا کی جماعت اور بلوائیوں کے گروہ کو جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے متصل پڑے ہوئے تھے، کوئی موقع اپنی شرارت آمیز ارادوں کے پورا کرنے کا نہ ملا، اب جب کہ ان کو یہ معلوم ہوا کہ صبح کو صلح نامہ لکھا جائے گا تو بہت فکر مند ہوئے اور رات بھر مشورے کرتے رہے، آخر سپیدہ سحر کے نمودار ہونے کے قریب انہوں نے سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر یعنی اہل جمل پر حملہ کر دیا، جس حصہ فوج پر یہ حملہ ہوا اس نے بھی مدافعت میں ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا، جب ایک طرف سے لڑائی شروع ہو گئی، تو فوراً ہر طرف طرفین کی فوجیں لڑائی پر مستعد ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئیں ۔ لڑائی کا یہ شور سن کر سیّدنا طلحہ اور سیّدنا زبیر اپنے خیموں سے نکلے اور شوروغل کا سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے اچانک حملہ کر دیا، سیّدنا طلحہ و زبیر فرمانے لگے افسوس علی بغیر کشت و خون کے باز نہ آئیں گے۔ ادھر شور و غل کی آواز سن کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ سے نکلے اور شورو غل کی وجہ پوچھی، تو وہاں پہلے ہی سے عبداللہ بن سبا نے اپنے چند آدمیوں کو لگا رکھا تھا، انہوں نے فوراً جواب دیا کہ طلحہ و زبیر نے ہمارے لشکر پر اچانک بے خبری میں حملہ کر دیا ہے اور مجبوراً ہمارے آدمی بھی مدافعا نہ لڑائی پر آمادہ ہو گئے ہیں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ افسوس طلحہ و زبیر بغیر خون ریزی کیے باز نہ آئیں گے، یہ فرما کر اپنے فوج کے حصوں کو احکام بھیجنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنے لگے۔ غرض بڑے زور و شور سے لڑائی شروع ہو گئی، فریقین کے سپہ سالاروں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو مجرم سمجھا اور حقیقت اصلیہ سے دونوں بے خبر و ناواقف رہے، تاہم فریقین کے لشکر میں لڑائی شروع ہونے کے بعد ایک ہی قسم کی منادی ہوئی کہ’’ اس معرکہ میں کوئی شخص بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرے، کسی زخمی پر حملہ نہ کرے، نہ کسی کا مال و اسباب چھینے، یہ منادی طلحہ و زبیر کی طرف سے بھی ہوئی اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی جو دلیل اس امر کی ہے کہ دلوں میں ایک دوسرے کی عداوت و دشمنی موجود نہ تھی، بلکہ دونوں فریق اس لڑائی کو بہت ہی گراں اور ناگوار محسوس کر رہے تھے اور مجبوراً میدان میں موجود تھے۔ عبداللہ بن سبا اور مصر وغیرہ کے بلوائیوں کی جماعت نے اب خوب آزادانہ میدان جنگ میں اپنی