کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 542
کہ اگر بصرہ والے آپ کا کہا نہ مانیں اور آپ کے مدمقابل لوگ صلح و آشتی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو پھر آپ کیا کریں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں گے، اس شخص نے کہا کہ آپ تو ان کو چھوڑ دیں گے، لیکن اگر انہوں نے آپ کو نہ چھوڑا تو پھر آپ کیا کریں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حالت میں ہم مدافعت کریں گے، اتنے میں ایک شخص بول اٹھا، کہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم نے خدائے تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے خروج کیا ہے، کیا آپ کے نزدیک ان کے پاس بھی کوئی دلیل خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کی ہے۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ان کے پاس بھی دلیل ہے، پھر اس نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس بھی کوئی دلیل اس بات کی ہے کہ آپ نے اس خون کا معاوضہ لینے میں تاخیر کی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امرمشتبہ ہو جائے اور حقیقت کا دریافت کرنا دشوار ہو تو فیصلہ احتیاط سے کرنا چاہیے، جلدی کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے، پھر اسی شخص نے پوچھا کہ اگر کل مقابلہ ہو گیا اور لڑائی شروع ہو گئی، تو ہمارا اور ان کا کیا حال ہو گا؟ سیّدنا علی نے فرمایا کہ ہمارے اور ان کے یعنی دونوں طرف کے مقتولین جنت میں ہوں گے۔
اس کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم بن سلمہ اور مالک بن حبیب کو سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام دے کر بھیجا، کہ اگر آپ حضرات اس اقرار پر جس کی سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اطلاع دی ہے قائم ہیں ، تو لڑائی سے رکے رہیں جب تک کوئی بات طے نہ ہو جائے، سیّدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے کہلا بھجوایا کہ آپ مطمئن رہیں ہم اپنے اقرار پر قائم ہیں ، اس کے بعد سیّدنا زبیر اور سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہما صف لشکر سے نکل کر دونوں لشکروں کے درمیان میدان میں آئے، ان دونوں کو میدان میں دیکھ کر ادھر سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے لشکر سے نکلے اور اس قدر قریب پہنچ گئے، کہ گھوڑوں کے منہ آپس میں مل گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اوّل سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے میرے خلاف اور میری دشمنی کے لیے یہ لشکر فراہم کیا اور میرے مقابلہ پر آئے، کیا عند اللہ تم کوئی عذر پیش کر سکتے ہو اور اپنے اس کام کو جائز ثابت کر سکتے ہو؟ کیا میں تمہارا دینی بھائی نہیں ہوں ؟ کیا تم پر میرا اور مجھ پر تمہارا خون حرام نہیں ہے؟ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کیا تم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں سازش نہیں کی؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دانا و بینا ہے اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجے گا اور اے طلحہ کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں میں نے بیعت کی تھی، لیکن میری گردن پر تلوار تھی، یعنی میں نے مجبوراً بیعت کی تھی اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے