کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 541
سالم بن ثعلبہ بولا کہ ہم کو صلح ہو جانے تک کہیں الگ اور دور چلے جانا چاہیے، شریح نے بھی اسی رائے سے اتفاق ظاہر کیا، لیکن عبداللہ بن سبا بولا کہ یہ رائے بھی کم زور اور غیر مفید ہے، اس کے بعد ہر شخص اپنی اپنی رائے بیان کرتا رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہوا، آخر کار سب نے عبداللہ بن سبا سے کہا کہ آپ اپنی رائے کا اظہار کریں ، ممکن ہے کہ سب اسی پر متفق ہو جائیں ، عبداللہ بن سبا نے کہا کہ بھائیو! ہم سب کے لیے مناسب یہی ہے کہ سب کے سب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ملے جلے رہیں اور ان کے لشکر سے جدا نہ ہوں ، بالفرض اگر وہ جدا بھی کر دیں اور ہم کو نکال بھی دیں تو ہم ان کے لشکر کے قریب ہی رہیں ، زیادہ فاصلہ اختیار نہ کریں اور کہہ دیں کہ اس لیے ہم آپ سے قریب رہنا چاہتے ہیں کہ مبادا صلح نہ ہو اور لڑائی چھڑ جائے تو ہم بروقت شریک جنگ ہو کر آپ کی امداد کر سکیں ، شریک لشکر یا قریب لشکر رہ کر ہم کو کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں لشکر جانبین سے جب ایک دوسرے کے قریب ہوں تو کسی صورت سے لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہونے پائے اور یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے، جس وقت فریقین آپس میں لڑ پڑے، تو ہمارے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا۔
جنگ جمل :
صبح اٹھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوچ کا حکم دیا، بلوائیوں کا لشکر جو مدینہ سے آپ کے ساتھ تھا، شریک لشکر رہا، ان کا ایک حصہ الگ ہو کر لشکر کے قریب قریب رہا اور ایک حصہ لشکر میں ملا جا رہا، راستے میں بکربن وائل اور عبدالقیس وغیرہ قبائل بھی لشکر علی رضی اللہ عنہ میں شریک ہو گئے، بصرہ کے قریب پہنچ کر مقام قصر عبیداللہ کے میدان میں سیّدنا علی خیمہ زن ہوئے۔
ادھر سے سیدہ ام المومنین اور سیّدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی مع لشکر آ کر اسی میدان میں فروکش ہوئے، تین روز تک دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلہ خاموش پڑے رہے، اس عرصہ میں سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بعض ہمرائیوں نے کہا کہ ہم کو لڑائی شروع کر دینی چاہیے، سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی معرفت مصالحت کی گفتگو ہو رہی ہے ہم کو اس کے نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے، صلح کی گفتگو کے دوران میں حملہ آوری کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی ان کے بعض لشکریوں نے جنگ کے شروع کرنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
ایک روز ایک شخص نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ آپ بصرہ کی طرف کیوں تشریف لائے، آپ نے جواباً فرمایا کہ فتنہ فرو کرنے اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت پیدا کرنے کے لیے، اس نے کہا